ایران میں سید ابراہیم رئیسی نئے صدر بن گئے ہیں۔ وہ بطورِ صدر کتنے قابل اور مدبر ثابت ہوتے ہیں یہ جلد ہی آنے والا وقت بتا دے گا۔ تاہم ہمارے لئے ملت ایران کی جمہوری اقدار اور اُن کے خواب بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں تو سکول و کالج کے زمانے میں ہی یہ طے ہوجاتا ہے کہ فلاں آدمی سیاست میں جائے گا، جو پڑھائی میں جتنا زیادہ نکما، کلاسوں میں غیر حاضر رہنے والا، اساتذہ سے بدتمیزی کرنے والا، ہلڑباز، مکار، دغاباز اور بدمعاش ہو اُسی کے سیاست میں جانے، لیڈر بننے، الیکشن لڑنے اور الیکشن میں کامیاب ہونے کے چانسز نمایاں ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ ساری چیزیں جس شخص میں جمع ہو جاتی ہیں وہ اعلی تعلیم کیلئے یورپ خصوصا برطانیہ اور امریکہ بھی چلاجاتا ہے اور پھر وہاں سے فرشتہ بن کر قوم کی مسیحائی کیلئے واپس پلٹتا ہے۔
اسکے مقابلے میں ایرانی بہت عجیب ہیں۔ ایران میں ہماری طرح جئے بھٹو، جئے نواز شریف اور جئے فلاں کے نام پر کوئی بھی سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ بے شک بانی انقلاب امام خمینی کے پوتے یا نواسے ہی کیوں نہ ہوں! آپ شہید مطہری کے ہی لخت جگر کیوں نہ ہوں! آپ بے شک ہاشمی رفسنجانی کے ہی جگرپارے کیوں نہ ہوں! اگر آپ میں ذاتی طور پر مطلوبہ حد تک سیاسی و ملی بصیرت نہیں تو عوام آپ کی ہر گز حمایت نہیں کریں گے۔ آپ کا ماضی، آپ کے بزرگوں کی خدمات، آپ کا تقدس، آپ کا گھرانہ سب کچھ سر آنکھوں پر لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ملک کی مہار آپ کے ہاتھوں میں دیدی جائے۔
بطورِ مثال ۱۹جون ۲۰۲۱کو ایرانی قوم نے جس شخص کو اپنا صدر منتخب کیا ہے ، اس کے پاس نہ شاہوں والی آن بان ہے ، نہ بادشاہوں والی شان و شوکت اور نہ ہی ایک دم کہیں سے آئے اور ملک کے صدر بن گئے۔ یہ ایران کی مٹی کا بیٹاہے، اس نے اس سے پہلے متعدد میدانوں میں ملک و قوم سے اپنی وفاداری اوربصیرت کا سالہا سال لوہا منوایا ہے۔ اپنی بہت زیادہ خدمات ، اعلی ملازمتوں اور تعلقات کے باوجود اس کے پاس اپنی ذاتی گاڑی تک نہیں ہے، اور یہ اپنی ساری زندگی کی محنت و مشقت سے صرف ۱۴۰ میٹر کا گھر بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔یہی اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی ہے۔
https://b2n.ir/r51700
اب اگر ایرانی قوم اپنے اسلامی انقلاب کے ساتھ مخلص ہے، اس قوم پر اقتصادی پابندیاں بھی ہیں، اس کی کرنسی بھی مسلسل گر رہی ہے تو اس قوم نے اپنے لئے صدر بھی ایسا ہی منتخب کیا ہے۔ وہ بھی عوام میں سے ہے، انہی کی طرح اس کا بھی معیارِ زندگی ہے اور انہی کی مانند وہ بھی مشکلات کے ساتھ پنجہ ازمائی کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگر ایران میں آیت اللہ رئیسی کی کامیابی کو انقلابیوں کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے تو اس کامیابی میں اہل سُنت کا کردار بھی انتہائی مثالی ہے۔ اہل سنت کی اسلامی مشاورتی اسمبلی نے آیت اللہ رئیسی کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا، اس کے علاوہ سنی مجلس قائدین کی طرف سے، مولوی علی احمد سلامی نے باضابطہ طور پر زاہدان میں ایک الیکشن آفس تشکیل دے کر آیت اللہ رئیسی کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا ، نیز اہل سنت کے دینی مدارس کے علمائے کرام ، آئمہ جمعہ و جماعت اور دیگر سنی جماعتوں کی طرف سے بھی موصوف کی واضح حمایت کی گئی تھی۔ ایران میں اگرچہ اہل سنت صرف چند فیصد ہیں لیکن اہل تشیع تمام ملکی و قومی امور میں ان سے مشاورت اور معاونت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے کہ اتحاد کی ضرورت صرف اقلیتوں کو ہوتی ہے۔ جبکہ اتحاد تو نماز کی طرح ایک قرآنی حکم ہے ، اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے اور عقلی اعتبار سے بھی کوئی بھی نظام چلانے کیلئے اتحاد کی اقلیت کے بجائے اکثریت کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اگر اکثریت اپنی عددی برتری کی بنا پر اقلیت کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھائے گی، انہیں پسماندہ رکھے گی، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گی اور ان کے خلاف دہشت گردی کرے گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ پھر اکثریت اقلیت سے الجھ کر رہ جائے گی، اور یوں اقلیت کی صلاحیتوں سے اکثریت محروم ہوجائے گی ۔
یہاں ایک یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کے صدرمنتخب ہونے سے ایرانی عوام کی توقعات اور امیدوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔یہ توقعات صرف اقتصادی ترقی تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایران کے استقلال کا دفاع، ہمسایوں کے ساتھ بہترین سیاسی تعامل، عالم اسلام کے ساتھ مضبوط دینی روابط، مشرق وسطی میں فعال کردار، عرب ریاستوں کے ساتھ فاصلوں میں کمی، روس، ترکی ، پاکستان اور چین کے ساتھ برادرانہ روابط کا فروغ، مغربی دنیا کے ساتھ برابری کے تعلقات کی استواری ، معاشی استحکام اور سب سے بڑھ کر اندرونِ ملک پیداواربڑھانے کے عمل میں تیزی۔ یہ سب خواب عوام کی آنکھوں میں ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو خواب دیکھتے ہیں وہی تعبیر بھی پاتے ہیں۔ ویسے ان انتخابات سے یہ درس ہمیں بھی ملتا ہے کہ صرف ملکی بہتری کے خواب دیکھنا کافی نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر کیلئے باصلاحیت لوگوں کو ووٹ دینا بھی ضروری ہے