نفاق بھی ہو اور اتحاد بھی
ابو آیت
معاشرے اجتماعی کاوشوں سے کامیاب ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا گلوبل ویلج کہلاتی ہے۔ سائنس اپنے عروج پر ہے۔ دنیاٹیکنالوجی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ میڈیا کی حکومت ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں ہونے والی معمولی جنبش، لمحے بھر میں دنیا کے دوسرے کونےتک پہنچ جاتی ہے۔ اسی دنیا میں چودہ سو سال پہلے ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ وہ اتفاق یہ تھا کہ ایک نئے دین نے ظہور کیا تھا۔ اس نئے دین کانام اسلام ہے۔ اس دین کے بانی حضرت محمد ص انسانوں کے درمیان وحدت و اخوت کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے نے قیصر و قصری کے کنگرے ہلا دئے۔ لات و منات کے بت گرادئے۔ انسانوں کو اُن کے حقوق و فرائض بتا دئے۔ فقط دس سال میں اسلام دنیا کا مضبوط ترین دین قرار پایا۔ مدینہ منورہ و مکہ مکرمہ کا معاشرہ کامیاب ترین معاشرہ ٹھہرا۔آج میں نے قلم اس لئے اٹھایا کہ محترم نذر حافی صاحب نے اپنے ہفتہ وار پروگرام کشمیر انٹر نیشنل سپورٹس فورم میں انتہائی چونکا دینے والی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بحیثیت ِملت بانی اسلام کے راستے کے مخالف چل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چودہ سو سال بعد آج ہماری مساجد ،نفع و نقصان ، مفادات ، دکھ درد سب کچھ الگ الگ ہے۔ کلمہ توحید و رسالت پر جمع ہونے والی ملت کا شیرازہ حقیقی معنوں میں بکھر چکا ہے۔ بلکہ اب تو کافروں کیلئے نرم اور آپس میں سخت ہیں ۔ ہر طرف ابن الوقتی کا دور دورہ ہے۔ دین کےفِرقے (ٹکڑے)اتنےہو چکے ہیں کہ عام شخص گن نہیں سکتا۔ کوئی مسلمان مارا جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم نام تو علامہ اقبال رہ ، قائد اعظم محمد علی جناح رہ ، مولانا موددی رہ ، علامہ عارف حسینی رہ، شاہ احمد نورانی اور قاضی حسین احمد رہ کا لیتے ہیں۔ جبکہ ایک دوسرے کو بھائی تو کیا اپنا ہمسایہ تک قبول کرنےکو تیار نہیں۔ ہر فرقہ خود کو حق اور دوسروں کو فرقہ ضالہ سے تعبیر کرتا ہے۔ کوئی مسلمان سائنس دان قتل ہو یا کوئی مفکر یا عالم دین ، جس فرقے کا ہے اسی کو غم اسی کو دکھ ، باقی سب پُر سکون ۔ فقط بات اتنی نہیں بلکہ یمن و فلسطین اور کشمیر جیسے سنگین مسائل پر یا تو خاموشی طاری ہے یا پھر چھڈو جی کی پالیسی ہے۔ اسلامی ممالک بھیڑچال میں اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں آخر اس صورتحال سے باہر کیسے نکلا جائے؟؟؟؟کشمیر انٹرنیشنل فورم کے چوتھے پروگرام میں محترم نذر حافی صاحب نے اظہارِ خیال کے لئے جناب ڈاکٹر ندیم بلوچ صاحب کو تجزیہ و تحلیل کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے منجھے ہوئے انداز میں موضوع کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کمزور ملت کیلئے قدرت و طاقت کا حصول ضروری قرار دیا۔ ان کے مطابق طاقت اقتصادی ، فوجی و سفارتی ہر طرح کی ہونی چاہیے۔ جب آپ کے پاس اقتصا دی طاقت ہوگی تو مضبوط فوجی قوت بھی کوئی فائدہ دے گی۔ پھر آپ کی سفارتی کوششیں بھی موثر ہونگی۔ پھر کسی کو مسلمانوں کے خلاف عالمی قوانین بنانے کی جرات نہیں ہوگی۔ وگرنہ ہیومن رائٹس فقط گوروں کے لئے ہی ہیں۔ سیاہ فام دسیوں مارے جائیں کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہو تی ۔ یا پھر چیخ چیخ کر دم توڑ جاتے ہیں۔ ان سارے مسائل کا علاج ہماری باہمی وحدت ہے۔
دوسرے معزز شریک گفتگو جناب ساجد خاکوانی صاحب تھے۔ خاکوانی صاحب معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ آپ نے امتی مسلمہ کے مسائل کے حل کیلئے چند قرآنی آیات سے استدلال کیا۔ ان آیات سے قتال کے واجب ہونے پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے مزید کہا کہ بعض خاص شرائط میں روزے معاف ہیں مگر قتال یا جہاد سب پر فرض ہے۔ جہاد کے لیے طاقت کی ضرورت ہے ۔ سفارتکاری کے ساتھ ڈنڈے کا استعمال ہی گارگر ثابت ہوتا ہے۔ جب تک ہم ڈنڈا نہیں اٹھائیں گے دشمن کو ہماری بات سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ فقط قرار دادوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا ۔ اقوام متحدہ میں اٹھانوے قرار دایں پیش ہو چکی ہیں ۔ ان پر لمبی مدت لگی ہے۔ عمل درآمد ایک پر بھی نہیں کرایا جا سکا ۔ دوسری طرف عراق کے خلاف پیش ہونے والی قرار داد چوبیس گھنٹوں میں پاس کرائی جاتی ہے ۔ فوری عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ایسا فقط طاقت کے بل بوتے پر ہوا ہے۔ ایسی ہزار زندہ مثالیں ہیں۔ پس سفارت کاری اور ڈنڈا ہی فلسطیین وکشمیر جیسے دیگر تمام مسلم امہ کے مسائل کا حل ہے۔آخر میں پروگرام کے میزبان محترم نذر حافی صاحب نے خلاصہ گفتگو میں طاقت کے صول کیلئے وحدت اور اخوت کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے ایک مرتبہ پھر باہمی رویوں پر نظر ثانی ، نفاق و نفرت سے پرہیز ، دوست ودشمن کی پہچان اور فاصلوں کے خاتمےکو لازمی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ نفاق بھی ہو اور اتحاد بھی، اسی طرح نفاق بھی ہو اور طاقت بھی یہ ناممکن ہے۔