ذرائع ابلاغ کے استعمال کے نمایاں قرآنی اصول نذر حافی
اسلام دینِ فطرت ہے۔ فطرتی طور پر ہر انسان مبلغ ہے۔ ایسا مبلغ کہ جو ہمیشہ دوسروں کو اپنا ہمنوا بنانے میں سرگرم رہتا ہے۔ چنانچہ انسان صرف اپنے عقیدے کی ہی تبلیغ نہیں کرتا بلکہ اپنی قوم، قبیلے، خاندان، علاقے، زبان الغرض ہر اُس چیز کی تبلیغ کرتا ہے جو اس سے منسوب ہوتی ہے اور یا پھر وہ جس سے منسوب ہوتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ انسان فقط تبلیغ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے مخالف مبلغین کا راستہ بھی روکتا ہے اورحسبِ امکان کبھی کبھی ان کی جان بھی لے لیتا ہے۔ تبلیغ کی دنیا میں سب سے شدید تبلیغ دینی و مذہبی تبلیغ ہے۔ ساری انسانی تاریخ میں مذہبی و دینی تبلیغ نے جتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو متاثر کیا ہے اتنا کسی اور تبلیغ نے نہیں کیا۔ مذہبی و دینی جنگیں چونکہ عقیدے کی بنا پر لڑی جاتی ہے سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج تک انسان نےانسان کا جتنا خون عقیدے کی خاطر بہایا ہے اتنا کسی اور شئے کی خاطر نہیں بہایا۔
کسی بھی قابلِ ذکر تنظیم، موثر تحریک، انقلابی سوچ، مقاومتی فورم، مزاحمتی آواز اور چونکا دینے والے قلم کے پیچھے ایک خاص عقیدہ کارفرماہوتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ عقیدہ درست ہے یاغلط لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر حرکت کی قوتِ متحرکہ کا نام عقیدہ ہے۔ عقیدے کو بہ عبارتِ دیگر نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو عقائد کی تربیت کرتے ہیں، نظریات کو رُشد دیتے ہیں، افکار کو تولید کرتے ہیں اور انسانوں کی سوچ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں دانشور کہا جاتا ہے۔
دنیا کا کوئی ایسا دانشور نہیں ہے جو تبلیغ سے بے نیاز ہو، کوئی ایسا مفکر نہیں ہے جو ذرائع ابلاغ سے منہ موڑ کر اپنا مشن چلانے کی سعی کرے اور کوئی ایسا دانشمند نہیں ہے جو اپنے نظریے کی تبلیغ کو خودممنوع قرار دیتا ہو۔ ہر دانشمند ، ہر مفکر، ہر عالم اور ہر صاحبِ فکر کی سب سے پہلی ترجیح تبلیغ ہوتی ہے۔ تنظیمیں تبلیغ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، تحریکیں تبلیغ کے ایندھن سے چلتی ہیں، تہذیبیں تبلیغ کے بہاو کی محتاج ہوتی ہیں، تمدُّن تبلیغ کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں۔ گویا تبلیغ انسان کی گُھٹی میں رکھ دی گئی ہے، چنانچہ ہر انسان سمجھے یا نہ سمجھے وہ کسی نہ کسی چیز کی تبلیغ کرتا رہتا ہے۔آج کے دور میں نِت نئے ذرائع ابلاغ کی ایجادات نے تبلیغ کے جہان میں بھی ایک محشر برپا کر دیا ہے۔چنانچہ ضرورت ہے کہ مسلمان ان ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دینی تعلیمات کی پابندی کریں، ورنہ یہ اطلاعات کا بے ہنگم بہاو، تجزیات کا بے کنار سمندر اور مفادات کی اندھی جنگ کسی بھی انسان کی دنیا و آخرت دونوں کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔
دینِ اسلام میں تبلیغ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے اور خدا نے انبیائے کرام کو بھی الِہی مبلغین قرار دیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کلامِ خدا کی روشنی میں ذرائع ابلاغ کے استعمال کے وقت وہ کون سےایسے نمایاں اصول ہیں جن کی ہمیں سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔
۱۔خوفِ خدا
سورہ احزاب کی آیہ ۳۹ میں ارشادِ پروردگار ہے:
الَّذِیۡنَ یُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخۡشَوۡنَہٗ وَ لَا یَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۳۹﴾
(وہ انبیاء) جو مبلغینِ الِہی ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
آج کے دور میں مختلف اغراض و مقاصد کیلئے خبروںمیں ہیر پھیر کرنا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، لوگوں کی نجی زندگی کے مسائل کو میڈیا میں اچھالنا، جعلی کلپ بنانا اور اس طرح کے کام کرنا معمول بن چکا ہے۔ نام نہاد حکام کو خوش کرنے کیلئے، کسی وڈیرے یا چودھری کی آشیربادحاصل کرنے کیلئے ، یا کہیں غنڈوں اور ڈاکووں کے ڈر سے بے راہروی، کرپشن، رشوت، فراڈ، دھونس اور معاشرتی برائیوں کے خلاف منبر و محراب اور قلم و کیمرے پر سکوت چھایا ہوا ہے۔ یہ تو واویلا سنائی دیتا ہے کہ ظلم ہو رہا ہے لیکن ظالم کو بے نقاب نہیں کیا جاتا۔
بہرحال باقی دنیا جو چاہے کرتی رہے تاہم ایک اسلامی مبلغ کیلئے ضروری ہے کہ اُس میں خوفِ خدا ہو۔ وہ خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے ذرائع ابلاغ کوڈنکے کی چوٹ پر صرف اور صرف حق بات پہنچانے کیلئے استعمال کرے ۔
۲۔ نصیحت اور علم
سورہ اعراف کی آیت ۶۲ کے مطابق حضرت نوح ؑ نےاپنی قوم سے اپنا تعارف ایک مبلغ کے طور پر کرایا:
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾
میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اگر ہم اس آیت میں تفکر کریں تو ذرائع ابلاغ کو لوگوں تک نصیحت اور علم و آگاہی پہنچانے کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مبلغ کینہ پرور، مُنتقم یا ہٹ دھرم ہونے کے بجائے ناصح ہو اور ساتھ ہی کتابِ خدا کا علم بھی رکھتا ہو ۔ اگر ذرائع ابلاغ انسان کی دسترس میں ہوں لیکن اس میں ایک ناصح کی سوچ اور کتابِ خدا سے آگاہی نہ ہوتو پھر ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی کچھ ہوتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے۔
۳۔ بے باکی اور حریّت
کسی بھی سلسلے میں جو بھی امرِ پروردگار ہو وہ بے باکی اور حرّیت کے ساتھ ذرائع ابلاغ سے بیان کیاجانا چاہیے۔ سورہ مبارکہ مائدہ کی آیت ۶۷ میں ارشادِ پروردگار ہے:
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ
اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
مذکورہ بالا آیت سے پتہ چلتا ہے کہ امرِ پروردگار کو پہنچانے میں تاخیر ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم تمام امور میں امرِ پروردگار کو کسی سے ڈرے بغیر عوام تک سُرعت کے ساتھ پہنچائیں تو اسی میں ہمارے سماج کی بھلائی ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں جب پروردگار نے اتنی قاطعیت سے اپنے رسولﷺ کے ساتھ گفتگو کی ہے تو اس سے ہمارے لئےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مصلحت کوشی قابلِ اغماز نہیں۔
آج ہمارے ہاں جتنی بھی خبریں ذرائع ابلاغ پر نشر ہوتی ہیں، اُن میں امرِ پرودرگار ، نصیحت اور شعور کے بجائے تشدد، دھونس اور لاقانونیت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
۴۔امید
ذرائع ابلاغ سے عوام کو حالات سے مایوس کرنے کے بجائے اچھائی اور بھلائی کا راستہ دکھایا جانا چاہیے۔ان کیلئے مشکلات کے بھنور میں نجات کے راستے تلاش کرنے چاہیے۔اگر لوگوں میں امید اور امنگ جوان رہے گی تو وہ برائیوں کے خلاف اصلاح کی جدوجہد کرتے رہیں گے، ظالموں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے اور طوفانِ مصائب کے بیچ میں چٹان بن کر کھڑے رہیں گے ۔قوموں کے پاس امید سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہوا کرتا لہذا ذرائع ابلاغ کو ہمیشہ امید کے چراغ جلائے رکھنے چاہیے۔
سورہ عنکبوت کی آیت پانچ میں ارشادِ پروردگارہے:
مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ؕ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ
جو اللہ کے حضور پہنچنے کی امید رکھتا ہے تو (وہ باخبر رہے کہ) اللہ کا مقرر کردہ وقت یقینا آنے ہی والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔
اس آیت کی روشنی میں حالات جیسے بھی ہوں، انسان کے اندر یہ امید زندہ رہنی چاہیے کہ بالاخر خدا ہے، اور وہ خدا میرے حالات سے باخبر ہے، اور اسی کے ہاں ہم سب نے پیش ہونا ہے۔ یہ امید انسان کو باطل کے قدموں میں گرنے اور ظالموں سے ڈرنے نہیں دیتی۔
چنانچہ سورہ اعراف کی آیت ۱۲۹ میں یہ منظر کشی کی گئی ہے کہ کس طرح حضرت موسی نے اپنی قوم میں امید کو زندہ رکھا۔ ملاحظہ فرمائیے یہ آیت:
قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ
(قوم موسیٰ نے) کہا: آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی، موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
۵۔نیکی کی ترویج اور برائی کی مخالفت
اُمّتِ مسلمہ کا فلسفہ وجودی ہی نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ پروردگار ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ [62]
“تم دُنیا میں بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کے لیے اُٹھایا گیا،تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”
پس ایک مسلمان شخص کے نزدیک ذرائع ابلاغ کے استعمال کا مقصد صرف اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کے خلاف جہاد ہونا چاہیے۔
۶۔ تجسس ممنوع
دینِ اسلام جہاں برائیوں کو روکنے کا حکم دیتا ہے وہیں دوسروں کے بارے میں غلط سوچنے سے بھی منع کرتا ہے۔مبادیٰ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کو بُرا خیال کرے۔ اسی طرحکسی کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ دوسروں کی برائیوں کی کھوج لگا کر اُن کی تشہیر کرے۔ اسی طرح قلم یا زبان سے دوسروں کی غیبت بھی حرام ہے۔
قرآن میجد کا واضح حکم ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ [69]
اے اہلِ ایمان بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو،کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں،تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرئے،کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرئے گا،دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔
۸۔حکمت
ذرائع ابلاغ کا ستعمال حکمت کے ساتھ کیاجانا چاہیے۔ حکمت کے کئی مدارج اور کئی زاویےہیں۔ خصوصا ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کون سی بات پرسنل نمبر یا انباکس میں مفید رہے گی اور کونسی عام گروپس میں۔ کس موضوع کو ایک جملے کے ساتھ ختم کر دینا ضروری ہے اور کس عنوان پرکئی مقالے لکھے جانے چاہیے۔ کہاں پر خاموشی واجب ہے اور کہاں بولنا لازم ہے۔ بے وقت کا بولنا اور بے وقت کی خاموشی خلافِ حکمت ہے۔
جس طرح دوست کے ساتھ مجادلہ کر کے اسے دشمن بنا لینا کسی بھی طور دانشمندی نہیں، اسی طرح مخالف کے ساتھ مجادلہ یا مناظرہ کر کے اس کی دشمنی میں اضافے کا باعث بننا بھی حماقت ہے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مجادلہ و مناظرہ کی نوبت اگرکہیں آ بھی جائے تو اس انداز میں کیا جائے کہ اس سے علم، شعور، ہم آہنگی اور ذہنی قربت میں اضافہ ہو۔
سورہ نحل آیت ۱۲۵ میں ارشادِ پروردگار ہے:
ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجادِلهُم بِالَّتي هِيَ أَحسَنُ ۚ
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں
نتیجہ:
موجودہ دور میں انسان کو روٹی ،کپڑےاور مکان کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی بھی ضرورت ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا کہ جب لوگوں کو زندہ رہنے اور اپنے تحفظ اور بچاو کیلئے فقط گہری خندقوں، مضبوط مورچوں، مال و متاع، فوج و سپاہ اور بارود و آگ کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔آج نفارمیشن ٹیکنالوجی نےجنگ کے محاز ، لڑائی کے ہتھیار اور پناہ لینے کے مورچے تبدیل کر دئیے ہیں۔ اب جنگ ارادوں کی جنگ ہے، اب مقابلہ دماغوں کا ہوتا ہے اور اب لڑائی قلم سے لڑی جاتی ہے۔ اب صرف قلم اور بیان کے ذریعے انسان دوسرے کے ذہن پر قبضہ کرنے، اُس کی ترجیحات کو بدلنے، اس کے عقائد کو تبدیل کرنے، اس کی ہمت کو پست یا بلند کرنے، اُس کے دل میں خوف، غم یا خوشی کی کیفیت پیدا کرنے کے اہل ہو گیا ہے۔ آج کے اِس پُر فتن دور میں جو شخص اپنے اِردگرد کے فتنوں سے غافل ہے، اُس کے پاس جتنے بھی ہتھیار ہو ں وہ کسی بھی طور محفوظ نہیں ہے۔آج کے زمانے میں فتنوں سے آگاہ رہنے، ان کا مقابلہ کرنے اور ان کا راستہ روکنے کا واحد اور مضبوط ذریعہ ذرائع ابلاغ ہیں۔ ہمیں ذرائع ابلاغ کی جدید ٹیکنالوجی سے آشنائی کے ساتھ ساتھ ان اسلامی حدود و قیود کا بھی مکمل علم ہونا چاہیے جن سے غفلت خود ہمارے ایمان، معاشرے اور آخرت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔