خانم کونیکو کی ہجرت نذر حافی
خانم کونیکو کا تعلق جاپان سے ہے۔ جنگ اُنہیں سخت ناپسند ہے، انہوں نے اپنے بچپن میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے مناظر دیکھ رکھے ہیں، انہیں جنگ کی وحشت، دربدری اور نہتے لوگوں کی موت کا پہلے سے تجربہ ہے۔ اُنہیں پتہ ہے کہ جنگ میں غذائی قلت کا اژدھا کیسے پھنکارتا ہے۔ وہ ایک بودایی خاندان میں پیدا ہوئیں تو اُن کی ماں اور باپ نے ان کا نام کونیکو رکھا۔ کونیکو ایک جاپانی لفظ ہے۔ جاپانی میں کونیکو یعنی وطن کی بیٹی۔ جاپان دنیا کی وہ پہلی جگہ ہے، جہاں سورج سب سے پہلے طلوع ہوتا ہے۔ اسی لئے جاپان کو سرزمین خورشید بھی کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی ایک خوفناک رات کا واقعہ ہے۔ اس رات سورج کی دھرتی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی تھی۔ دس مارچ 1945ء کو طلوعی خورشید سے دو گھنٹے پہلے، جاپان کے شہر ٹوکیو پر 325 امریکی جنگی جہازوں نے تین گھنٹے مسلسل بارود کی بارش برسائی۔ بارود کی اِس بارش کے لئے گنجان آباد علاقے کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں بارود نے ساٹھ فی صد آبادی اور رقبے کو بھسم کرکے رکھ دیا۔
ان تین گھنٹوں میں ایک لاکھ انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے، جبکہ دس لاکھ زخمی اور بے گھر ہوئے۔ اسی طرح 1946ء میں جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکے گئے تو کونیکو نے انتہائی کم سنی میں ان حوادث کا مشاہدہ کیا۔ جب امریکی فوجی جاپان میں ایٹم بم سے کوئلہ بن جانے والے انسانوں کو دفنا رہے تھے تو اس وقت خانم کونیکو اس تاریخی جرم کو نزدیک سے دیکھ رہی تھیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب جاپان میں امریکی فوجی، جاپانی لڑکیوں کو جسم فروشی کی ترغیب دینے میں مصروف تھے۔ کونیکو نے امریکی و مغربی سماج کے اس زہر کو اپنے وطن میں سرایت کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ خانم کونیکا میدانِ جنگ میں جاپانی خواتین کے حوصلوں کی بھی عینی شاہد ہیں۔ یہ اُن کے سامنے کا واقعہ ہے کہ جب جاپانی عورتوں نے اپنے بالوں سے ستر ستر میٹر لمبی اور تیس تیس سینٹی میٹر موٹی رسیاں بٹی تھیں۔ ان رسیوں کو جاپانی جنگجو جہاز باندھنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا، وہ پرائمری سکول سے ہائی سکول اور ہائی سکول سے کالج میں پہنچ گئیں۔ اب یہ عمر، ان کی شادی کی تھی۔ انہوں نے گھریلو مہارتیں سیکھنے کیلئے انگلش بھی سیکھ لی، انگریزی زبان سکھانے کے ایک ادارے میں اُنہوں نے ایک آدمی کو عجیب و غریب حرکات کرتے دیکھا، استفسار پر پتہ چلا کہ وہ ایک ایرانی تاجر ہے اور نماز پڑھ رہا ہے۔ اس تاجر سے ملاقات نے کونیکو کی زندگی میں طلاطم برپا کر دیا۔ بعد ازاں اسی تاجر سے خانم کونیکو نے شادی کر لی۔ بدھ مت سے مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنا سب کچھ ترک کرکے ایران چلی گئیں۔ ایران میں ایک جدوجہد بھری زندگی نے ان کا ستقبال کیا۔
رضا شاہ پہلوی کے دور میں اسلامی انقلاب کی تحریک میں انہوں نے اپنا حصہ ڈالا، یہ انقلاب کامیاب ہوا تو وہ اس کی مضبوطی اور پائیداری کیلئے سرگرم ہوگئیں۔ انہیں ایران پر ہونے والے صدامی حملے میں اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے. یوں وہ واحد جاپانی خاتون ہیں، جنہیں ایک شہید کی ماں کے طور پر ایران میں پہچانا جاتا ہے۔ ایران میں اُن کا افتخار صرف ایک شہید کی ماں ہونا ہی نہیں بلکہ آج بھی وہ اپنے سارے وجود کے ساتھ دینِ اسلام کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر آج کے زمانے میں کسی نے ہجرت کے مقدس مفہوم کو کسی کے وجود میں دیکھنا ہو تو وہ خانم کونیکو یاما مورا کو دیکھ لے۔
اٹھہتر سالہ خانم کونیکو یاما مورا آج بھی تہران میں مقیم ہیں۔ ان کی زندگی ایک سبق آموز زندگی ہے۔ اس کا مطالعہ ہمیں دینِ اسلام کی آفاقیت کی یاد دلاتا ہے۔ وہ لوگ جو دینِ اسلام کی خاطر اپنی ہر چیز چھوڑ دیتے ہیں، دین کی اصطلاح میں انہیں مہاجر کہا جاتا ہے۔ خانم کونیکا ایک مہاجر ہیں، ان کی ہجرت دو عناصر پر مشتمل ہے، ایک توفیقِ خداوندی اور دوسرا مضبوط ارادہ۔ خانم کونیکو نے سورج کی سرزمیں سے اسلام کے آسماں کا سفر انہی دو پروں کے ساتھ کیا ہے۔ یہی دو عناصر ہیں جنہوں خانم کونیکو کو سبأ بابایی بنا دیا۔ سبا کا اسم انہوں نے قرآن مجید میں مذکور ملکہ سبا سے لیا اور بابائی ان کے ایرانی شوہر کا خاندانی نام ہے۔