اِس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا؟ تحریر : خورشید احمد ندیم
بقراط مرزا جو خاموشی سے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اخبارات کی خبریں ” تناول “ فرما رہے تھے کہ انہوں نے اچانک قہقہہ لگایا اور ساتھ ہی بے اختیار تبصرہ بھی جڑ دیا کہ
“ اسکے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہےے تھا “
میں نے کہا مرزا جی خیر تو ہے اخبار میں کیا چھپ گیا ہے اور کس کے ساتھ ” ایسا ہی ہونا چاہےے تھا “ ؟
بولے یہ خبر خود ہی پڑھ لو مجھ سے اب یہ دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی ۔ میں نے اخبار دیکھا تو خبر یہ تھی کہ ” برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرو ن کرایہ کے مکان میں منتقل ہو گئے ، ان کا اپنا گھر معاہدے کے مطابق اگلے سال خالی ہوگا ، وغیرہ وغیرہ “
میں نے کہا یار مرزا اس خبر میں بہت کچھ تو ہے مگر قہقہہ لگانے والی کون سی بات ہے ؟
تو چائے کے آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بولے ” میں اس پر قہقہہ نہ لگاﺅں تو کیا ماتم کروں ؟
اب تم ہی بتاﺅ کہ کیا اِس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک ہے ؟ اچھا بھلا برطانیہ کا وزیر اعظم لگا ہوا تھا اور ایک فضول سے ریفرنڈم میں ایک فیصد ووٹوں سے شکست پر خوا ہ مخواہ استعفیٰ دے کر کرائے کا مکان ڈھونڈتا پھرتا ہے حالانکہ اس کوکسی نے بھی استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا تھا ۔
میں کہا یار مرزا یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے ریفرنڈم پر اُس کے موقف کو برطانیہ کے عوام نے مسترد کر دیا تھا ، اس لئے اس نے اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیا ۔ جس میں ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی میری بات سن کر مرزا نے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھ کر ہاتھ کو گھمایا اور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ کہیں تمہارا بھی ” توازی دماغن “ خراب تو نہیں ؟
میں نے کہا غالباً آپ ” دماغی توازن “ کہنا چاہتے ہیں تو بولے آپ کو سمجھ تو آگئی ہے یہ ہی سمجھ لیں ۔
میں نے کہا اس میں دماغی توازن خراب ہونے والی کون سی بات ہے ؟ بولے
ڈیوڈ کیمرون میں اگر ہمارے ملک کے چھوٹے موٹے سیاستدانوں جتنی عقل بھی ہوتی تو اس کے پاس کئی محلات ضرور ہوتے اور اووپرکی کمائی الگ ،ر ہی بات استعفیٰ دینے کی تو اسے ہمارے ملک کے وزیر اعظم سے نہ سہی سابق صدرِپاکستان سے آصف علی زرداری سے سیاسی داﺅ پیچ سیکھنے کے لئے ،عوام کو لارا لپا لگانے اور دیگر اسرار ورموز سیکھنے کے لئے”
سیاسی ٹیوشن “ پڑھنی چاہےے کہ اس نے ماڈل ٹاﺅن میں 14 افراد دن دہاڑے قتل ہونے، سینکڑوں افراد کو گولیوں سے زخمی کرنے اور ایف آئی آر میں ان کو نامزد ہونے کے باوجود انہوں نے پھر بھی استعفیٰ نہیں دیا ۔ پانامہ لیکس میں محض نام آنے پر کئی ممالک کے وزرا ءاعظم کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے مگر انہوں نے اپنی کابینہ کے ہونہار وزراءکے ذریعے اپوزیشن کو وہ چکر دئےے کہ اپوزیشن منہ چھپائے پھرتی ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم کے ہونہار سپوت ڈیوڈ کیمرون کے ملک میں اربوں کھربوں کا بزنس کر رہے ہیں ان سے ہی مال بنانے کا کوئی سنہری نسخہ لے لیا ہوتا ۔
اب آپ خود ہی بتائیں کہ ڈیوڈکیمرون اچھے خاصے ٹین ڈاﺅننگ سٹریٹ وزیر اعظم بنے بیٹھے تھے اور اب کرائے کے مکان ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہےے تھا کبھی وہ سائیکل پر ٹین ڈاﺅننگ سٹریٹ جاتے ہیں اور کبھی وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے اپنا سامان خود اٹھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں ،انہوں نے تو وزراءاعظم کی ناک ہی کٹوا کے رکھ دی بھلا ایسے ہوتے ہیں وزیرِاعظم؟اگر ان کو یہ منصب سنبھالنا نہیں آتا تھا تو ہمارے وزراءاعظم کو ہی دیکھ لیتے۔ اگر وہ ” خواجہ خواجگان “ اور اسحاق ڈار جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پرویز رشید جیسے دبنگ قسم کے وزراءکو اپنی کابینہ میں شامل کرتے تو انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔
میں نے کہا یار مرزا ریفرنڈم کے نتائج کا تقاضا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے یہ کچھ تو پھر ہونا ہی تھا ۔ مرزا بڑے غصے سے بولے
میاں ایسا تھکا ہوا فضول قسم کا ریفرنڈم جس میں کوئی ہنگامہ نہ کوئی توڑ پھوڑ ۔ نہ دیگاں شیگاں ، نہ ٹھا ہ ٹھاہ گولیاں شولیاں ، نہ بھنگڑے اور نہ آتش بازی اور نہ ہی دھاندلی کا شور ، یہ کیس کہ بس چپکے سے آﺅووٹ ڈالو اور چلے جاو، دفعہ کرو مٹی پاﺅ یہ کیا ریفرنڈم تھا ۔ اس طرح کے وزیر اعظم کے ساتھ یہی ہونا چاہےے تھا ۔