سب کچھ محنت سے کمایا ہے ؟ تحریر: خورشید احمد ندیم
بقراط مرزا جوکسی ” چوندی چوندی “ خبر کی تلاش میں اخبارات کے بخےے ادھیڑ رہے تھے میں نے ان کی توجہ شام کے ایک اخبار کی شہ سرخی کی طرف دلوائی کہ ” ڈالر گرل ایان علی“ 70 کروڑ 60 لاکھ روپے کی مالک نکلیں ، سونے کے زیورات ‘ ہیروں کی انگوٹھیاں ‘ لگژری گاڑیاں اور ملبوسات علیحدہ ہیں ۔ کسٹم حکام ، اثاثوں کی مالیت کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ” سب کچھ محنت سے کمایا “ الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔ جلد بری ہو جاﺅں گی : ایان علی ۔
یہ خبرسن کر بقراط مرزا باقاعدہ کھکھلا اٹھے گویا ” گوہر مقصود “ ہاتھ آ گیا ہے ۔ مرزا بولے اس میں کوئی شک نہیں یہ کروڑوں کے اثاثے ڈالر گرل نے ” بڑی محنت “ سے بنائے ہیں ۔ بقول شاعر کے
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
میں نے کہا کیا مطلب ؟ بولے ہر بات کا مطلب سمجھانا ضروری نہیں ہوتا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ جن ” پردہ نشیں ، شرفا و معززین “ کیلئے یہ ڈالر گرل کام کرتی ہے وہ کیا ہونگے ؟
کرپشن لوٹ مار اور ادھر کا مال ادھر کرنے والے مگر مچھوں کے سمندر ایک چھوڑی سی مچھلی کے جبڑوں کا سائز یہ ہے تو بڑے بڑے مگر مچھوں کے جبڑوں کے سائز کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ میں نے کہا یار مرزا بات تو تم ٹھیک کہتے ہو مگر ان لوگوں کے سامنے جا کرہمارا قانون بے بس کیوں ہوجاتا ہے ؟
یہ سن کر مرزا بولے میاں ہمارے ملک میں قانون نہیں ” قنون “ نافذ ہے ۔ قانون اندھا ہوتا ہے مگر قنون نہیں ۔ قانون اپنا پرایا نہیں دیکھتا وہ سب کیلئے یکساں ہوتا ہے مگر قنون ایک آنکھ رکھتا ہے جس سے وہ یہ دیکھ لیتا ہے کہ کہیں کوئی ” اپنا تے اگے نہیں آگیا “
میں نے کہا یار مرزا تم تو اچھی بھلی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہو ڈالر گرل کو عدالتوں میں گھسیٹا تو جا رہا ہے ناں ؟ اب کے خلاف کیس گا تو سزا بھی ملے گی یہ سن کر مرزا نے قہقہہ لگا یا اور کہا کہ
ایں خیال است و محال است و جنوں است
میں نے کہا اس کا مطلب ؟ بولے مطلب کو گولی مارو یہ بتاﺅ کہ ” اب تک ڈالر گرل کیخلاف کیا کارروائی ہوئی ہے ؟ “
میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ مرزا بول اٹھے کہ یہی ناں کہ کبھی معزز و محترم ، عزت مآب ، جناب جج صاحب کرسی عدالت پر جلوہ افروز نہیں ہوتے تو کبھی ” محترمہ “ کے ” وکیل صفائی “ بڑی صفائی سے عدالت سے غیر حاضر پائے جاتے ہیں تو کبھی وکیل صفائی تشریف لاتے ہیں تو ڈالر گول کی طبع نازک ناساز ہوجاتی ہے ۔ اور اگر غلطی سے کسی تاریخ پر سب موجود ہوں تو کسی نامعلوم وجہ سے یا چالان مکمل نہ ہونے کی وجہ سے عدالت سے ” اگلی پیشی “ تک کا ٹائم لے لیا جاتا ہے اور یہی بات کہ ” ڈالر گرل “ عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے ۔ تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس ” جوئے شیر “ لانے پر خراج تحسین اور مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے ڈالر گرل کی ایک ایک ادا کی لمحہ لمحہ عکس بندی کی ۔ اس کے میک اپ ، فیشن ، جیولری اور ہیر سٹائل سے لے کر ہر بار عدالت میں ایک نئے سٹائل میں آنے اور جانے کی بھرپور کوشش کوریج کی جبکہ کیس ابھی تک وہیں ہے جہاں پہلے دن تھا ۔
میں نے کہا کہ مرزا یہ جن پردہ نشینوں کی ” آلہ کار “ ہے انکی طاقت کا اندازہ تو تمہیں ہو ہی گیا ہوگا ؟ یہ سن کرمرزا بولے میاں اب بات میں کوئی شک نہیں کہ پکڑے جانے کے بعد اس کے جیل میں رنگینیاں بکھیرتے اور عدالتوں میں جلوہ افروز ہونے سے مجھے نادیدہ طاقتوں کے زور بازو کا اندازہ تو ہو ہی رہا ہے مگر ایک واقعہ بھی یاد آرہا ہے کہ یہ غالباً 1995 ءکا واقعہ ہے الحمرا ہال لاہور میں فلمی اداکاروں کو ایوارڈز تقسیم کئے جا رہے تھے ۔ مشہور مزاحیہ فنکار عمر شریف ایوارڈ تقسیم کر رہے کہ ایک اداکارہ عندلیب کو ایوارڈ دئےے جانے کا اعلان ہوا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا مگر جب اداکارہ ” شمشیر برہنہ “ بن کر نمودار ہوئی تو عمر شریف نے بے ساختہ جملے کہہ ڈالے کہ اس کو کہتے ہیں کہ ” ڈش انٹینا “ (یاد رہے کہ اس وقت ڈش ابھی اتنی عام نہیں ہوئی تھی ) اور ساتھ یہ شعر پڑھ کر ماحول کو گرما دیا کہ
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو میں مر جاﺅں گا
میں تو پاکستانی ہوں انڈیا سے آگے گزر جاﺅں گا
ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونجتا رہا ۔ اتنی دیر میں ادارہ سٹیج تک پہنچ چکی تھی جسے عمر شریف نے تعریف کر کے اور بھی ” بھوک “ دے دی بقول داغ دہلوی کہ
وہ ناز سے زمین پہ رکھتے نہ تھے قدم
تعریف کر کے اور بھی ہم نے اڑا دیا
عمر شریف نے کہا کہ ” محترم آپ کا ایوارڈ ہو یا نہ ہو بس آپ آجایا کریں اس سے ذرا ماحول سا بن جاتا ہے “ اس جملے اور حملے پر حال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا ۔ میں نے کہا کہ اس واقعے کا ڈالر گرل سے کیا تعلق ؟ تو جل کر بولے میاں صحافی بنے پھرتے ہو کبھی عقل استعمال کر لیا کرو ابھی تک ڈالر گرل کے کیس میں جو پیش رفت ہو ئی ہے وہ فقط اتنی ہے کہ
” بس تم آجایا کرو اس سے ذرا ماحول سابن جاتا ہے “ سارے کیس میں سے اگر یہ مذکورہ بالا جملہ خارج کر دیا جائے تو کیس میں فقط ” مگر اپنے اپنے مقام پہ کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں “ ہی رہ جاتا ہے ۔
میں نے ہنستے ہوے کہا یار مرزا خدا کا خوف کر یہ کیا بکواس کر رہے ہو ، بولے میری بات لکھ لو یہ کیس اگر ” یونہی چلتا رہا تو دیکھنا کہ ایک دن سارے الزامات بکواس اور جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوں گے اور ڈالر گرل کو ” باعزت بری “ کر دیا جائے گا اور یہ بات سچ ثابت ہو جائے گی یہ سب میری محنت کی کمائی ہے “
یہ کہہ کر مرزا کمرے سے نکل گئے ۔