پاک امریکہ تعلقات۔۔۔ڈو۔۔مور۔۔۔یا ۔۔۔نو ۔۔مور۔۔؟ خورشید احمد ندیم
میں نے بقراط مرزا کو جب یہ بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے Do moreیعنی ”اور کرو“ کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ تو اس پر مرزا نے قہقہ لگایا اور علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم صنیفی کی سزا امرگ مفاجات
میں نے کہا یار مرزا میں سنجیدگی سے بات کر رہا ہوں آپ ہو کہ اس کوشعروں میں اڑا رہے ہو۔اس پر مرزا نے کہا کہ ہر گز نہیں ،میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اب پاکستان علامہ اقبال کے سبق پر عمل کر ے اور امریکی ڈو مور کے جواب میں نو مور یعنی اور زیادہ کرو کے جواب میں”چل بھاگ یہاں سے “کا جوانی وارکر ے۔
میں نے کہا کہ یار مرزا آپ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ 70 ہزار سے ایک لاکھ تک قربانیوں کو یک سر نظر انداز کر کے بھارت کو اپنا پارٹنراور دوست قراردیا اور یہ بھی کہا کہ اب افغانستان میں امریکی مفادات کے حصول کیلئے ”تھانیداری“ کے فرائض بھارت سر انجام دے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کو لاکھوں ڈالرز دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دیتے ہیں۔ مگر پاکستان میں انہی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اس پر مرزا نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ڈو مور کا مطالبہ کو ئی نیا مطالبہ نہیں ہے ۔ یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے ۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے جب پاکستان کو افغانستان میں گھسے روس کے خلاف جنگ میں جھونکنا چاہا تو سابق صدر مرحوم جنرل ضیاءالحق نے امریکی امداد کو ”مونگ پھلیاں “کہہ کر امریکہ کے منہ پر دے مارا۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت سے جب بھی ”او ر کرو“ کا مطالبہ کیا گیا تو پاکستان کی جانب سے کوئی زیادہ مزاحمت نہیں کی گئی۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر 9/11 کی آڑ میں حملہ کیا تو سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ کا کھل کر اس لیے ساتھ دیا تھا کہ امریکی صدر نے پرویز مشرف کو فون کیااور پوچھا کہ ”آپ امریکہ کے ساتھ ہیں یا خلاف“؟
جب مشرف نے پس و پیش سے کام لیا تو امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ ”ہم پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے “ پھر افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا
میں نے کہا کہ یار مرزا اب ہماری حکومت کا رد عمل کیا ہے؟اس پر مرزا نے کہا کہ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ”Bagers have no choice“ بھکاریوں کے پاس کوئی چوئس نہیں ہوتی۔ امریکی صدر کی تقریر کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کابینہ کے ہمراہ اجلاس کے بعد تشویش اور حیرت کا اظہار کیا ہے جبکہ ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مشاورت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکہ جا کر پاکستان کے موقف کی وضاحت کریں گے ۔
میں نے کہا کہ یار مرزا آپ کی بات درست ہے کہ کیا ہمارے ملک کی طرف سے صرف اظہار تشویش کر دینے سے کام چل جائے گا؟۔ اور ہمارے ملک کا پالیسی بیان کیا ہو گا؟ ہمارے ملک کے وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے بیان پر کیا رد عمل ظاہر کیا ہے ؟اس پر مرزا بولے در اصل ہمارے ملک کی کابینہ کو اس وقت دہشت گردی کا مسئلہ در پیش نہیں ۔ہمارے ملک کو تو گذشتہ چار سال سے ایک فل ٹائم وزیر خارجہ نصیب نہیں ہو سکاتھا۔ وہ تو نواز شریف کے نا اہل ہونے سے خواجہ آصف کو مجبوراً وزیر خارجہ بنا یاگیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی تقریر کے فوراً بعد پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں کو سراہا اور امریکہ کو کرارا جواب دیا اور تو اور اب تو روس کی حکومت نے بھی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستایوں کے کردار کو سراہا ہے اور امریکی صدر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، جبکہ ہماری وزارت خارجہ ”ٹک ٹک دےدم دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
میں نے کہا کہ کیا امید ہے کہ پاکستان امریکہ کو کوئی کھرا اور سیدھا جوا دے گا؟یہ سن کر مرزا بولے نہیں”ہم اسی تنخواہ پر کام کریں گے ۔ویسے بھی امریکہ کے نزدیک ہم کرائے کے فوجی ہیں۔ ہم نے 70 ہزار افراد کی قربانی دی تو کیا ہوا۔ ہماری کیا مجال کہ ہم امریکہ کی بات ٹال سکیں۔ اور امریکہ کو جواب دے بھی تو کون دے کیونکہ ہمارے ملک کی ساری کابینہ تو ایک نااہل اور کرپٹ وزیر اعظم کو بچانے کیلئے آئین کو تبدیل کرنے کی فکر میں ہے۔ انہیں تو آئین کی دفعہ 62 اور 63 نے پریشان کر رکھا ہے ۔ کیونکہ ہر ایک ڈاکو چور اور کرپٹ کے سر پر خطرے کی تلوار دن رات لٹک رہی ہے ۔ انہیں امریکہ سے کم اور نیب کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے زیادہ خطرہ ہے۔ امریکہ کی غلامی میں ڈالر بھی ملتے ہیں اور اقتدار بھی ۔جبکہ62 اور 63 کی زد میں آنے سے ذلت اور جیل کے سوا کیا ملے گا؟
میں نے پوچھا مرزا امریکی وزیر خارجہ ر یکس ٹیلر سن نے تو کہا ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے ہم پر حملے ہوئے ہیں۔ او ر ہم امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں برداشت نہیں کریں گے ،
مرزا بولے در اصل بات یہ ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان نے امریکی فوجیوں کا مارمار کے بھر کس نکال دیا ہے ۔ اور افغانستان سے امریکہ جانے والے تا بوتوں کی تعداد میں اچانک اضافے سے امریکہ بوکھلا گیا ہے۔۔ اسی بات پر جھلا کے ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکہ جب بھی افغانستان میں چھترول ہوتی ہے اسے پاکستان پر غصہ آتا ہے اور وہ ڈو مور کا مطالبہ شروع کر دیتا ہے ۔ میں نے کہا امریکہ کا جھکاﺅ اب بھارت کی طرف کیوں ہو گیا ہے؟
تو مرزا بولے سیدھی سی بات ہے کہ بھارت کی لابی پاکستان کے مقابلے میں دنیا بھر کے ممالک میں انتہائی کا میاب ہے ۔پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں لاکھوں قربانیاں اور اربوں روپے کا نقصان اٹھانے کے بعد بھی دنیا بھر کے ممالک خصوصاً امریکہ اور بھارت اپنا کیس ٹھیک طرح سے پیش نہیں کر سکا۔جبکہ بھارت دہشت گردی کر کے بھی معصوم بنا پھر تا ہے ۔ اس کی وجہ سے صرف خارجہ پالیسی کا مضبوط ہونا ہے ۔
مرزا بولے امریکہ اپنا مطلب نکالنے کےلئے دوستی کرتا ہے کیونکہ امریکہ کی نظر میں کوئی مستقل دوست اور کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا ۔ اسی پالیسی کے تحت اگر ”پاکستان امریکہ کو ” نو مور“ کہہ کر بائے بائے کر دے تو امریکہ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں کیونکہ امریکہ کی افغانستان میں ساری سپلائی پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے مگر سوال پھر یہی ہے کہ ایسا کون اور کیسے کرے گا؟