آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ خورشید احمد ندیم
دشمنوں نے اُڑارکھی تھی کہ خواتین تو خاموش رہ سکتی ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ بقراط مرزا زیادہ دیر خاموش رہیں ،لیکن آج خلاف معمول مرزانہایت خاموش اور بُجھے بُجھے سے تھے۔
میں نے انہیں چھیڑنے کے لئے کہا یار مرزا خیر تو ہے ناں۔۔ آج پانامہ لیکس ۔۔۔کسی ڈان لیکس یا پی ایس ایل کی سپاٹ فکسنگ سکینڈل پر کوئی تبصرہ نہیں ۔۔۔؟
وہ پہلے تو میری طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتے بلکہ گھورتے رہے اور پھر دھیمے لہجے میں بولے
ےار آج دل نہیں چاہ رہا کسی خبر پر تبصرے کی ِ”گولہ باری “کرنے کواور ویسے بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کس خبر پر تبصرہ کریں اور کس پر نہ کریں ۔
مرزا بولے ایک وقت تھا کہ کہیں کوئی دنگا فساد ہو جاتا تو ہر طرف خوف وہراس پھیل جاتا اور لوگ توبہ توبہ کرنے لگتے اور اسے قُربِ قیامت کی نشانیاں قرار دیتے مگر آج ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ بڑی سے بڑی خبر بھی اب کوئی خبر نہیں رہی ۔
پہلے اگرکہیں قتل ہو جاتا تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا لوگ گھروں میں دبک جاتے اور سب سے بڑی بات یہ کہ آسمان لال آندھی سے سُرخ ہو جاتا جس سے دُور دراز کے لوگ بھی سمجھ جاتے کہ کہیں قتل ہوا ہے لوگ خوفزدہ ہو کر اللہ کی بارگاہ میںتوبہ توبہ کرنے لگتے تھے۔
مگر اب تو یہ عالم ہے کہ ایک ایک بم دھماکے اور خودکش حملے میں درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں افراد کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر کہیں سُرخ آندھی بھی دکھائی نہیں دیتی۔
مرزا بولے بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اب اتنے بے حِس ہو گئے ہیں کہ ٹی وی پر کسی بم دھماکے یا خود کش حملے کی خبر دیکھتے اور سُنتے ہیں اور پھر اِس طرح پوچھتے ہیںکہ کتنے مرے کتنے زخمی ؟ گویا ایک دوسرے سے کسی کرکٹ میچ کاسکور پوچھ رہے ہوں۔
میں نے کہا ےار مرزا بات تو آپکی ٹھیک ہے مگر اس مسئلے کا کوئی حل بھی تو ہو گا ؟
آخر حکمران بم دھماکے اور خود کش حملے روکنے کے لئے کیا کریں ؟
میرے اس سوال پر مرزا غصے میں آگئے اور بولے ۔
میاںحکمرانوں کی تو بات ہی چھوڑدو وہ اِسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لئے ہوئے ٹیکسوں سے خریدی جانے والی بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں اور سینکڑوں کمانڈوز کے حصار میں رہتے ہیں اور ذرا سی خطرے کی بوسُونگھ کر ہی اپنا دورہ اور سارا پروگرام ہی منسُوخ کر دیتے ہیں
ان حکمرانوں کو جتنی فکر اپنی اور اپنے خاندان کی سیکورٹی کی ہے اس سے آدھی فکر بھی عوام کی ہوتی تو آج عوام کا یہ حال نہ ہوتا ،رہی بات حکمرانوں کی تو ان سب کا طرزِعمل ایک ہی ہے چاہے وہ نئے ہوں یا پُرانے اور کسی بھی پارٹی سے ہوں ۔
میں نے کہا ےار مرزا ایسے تو نہ کہو یہ کس طرح ممکن ہے ؟تو بولے اگر یقین نہیں آتا توموجودہ اور سابق حکمرانوں کے نئے اور پُرانے اخباری بیانات کا ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لو تو ”محمودوایاز ایک ہی صف “میں کھڑے نظر آئیں گے ،پارٹی کوئی بھی ہو
سب کے اخباری بیانات اور طرزِعمل ایک ہی ہوگا اور ہے مثلاً
٭ہم دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی کی گردنیں توڑکر رکھ دیں گے ۔۔۔وزیرِداخلہ
٭ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے دوبارہ منظم نہیں ہونے دیں گے ،وزیر اعظم
٭ہم دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ،دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر سے آ ہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا ۔۔۔آرمی چیف
٭کسی کو بھی ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی اجازت نہیں دی جائے گی(گویا سماج دشمن اور تخریب کا رعناصر آپ کو باقائدہ درخواست پیش کریں گے کہ جناب ِ عالی ہمیں ایک عدد بم دھماکہ یا خود کش حملہ کرنا چاہتے ہیں مہربانی فرما کر اس کی اجازت دی جائے وغیرہ وغیرہ)
میں نے کہا کہ ےار مرزا اب آپ چٹکلوں اور لطیفوں پر اُتر آئے ہو ۔
بولے ہر گز نہیںہمارے حکمرانوں کے اخباری بیانات اکثراوقات کسی لطیفے سے کم نہیں ہوتے مثال کے طور پر ہمارے ایک سابق” وزیر قنون“کا یہ بیان اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا تھا کہ ”کسی کو قنون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر کسی نے کوشش کی تو یہ حرکت میں آ جائے گا “
میں ابھی قہقہہ لگانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا مرزا نے ہاتھ اُٹھا میرے قہقہے کا خون کر دیا اور بولے
ہر دھماکے ،خودکش حملے اور وادات کے بعدحکومت کے اعلیٰ وبالا افسران اور ذمہ داران ہمیشہ ایک ہی طرز کے بیانات دیتے ہوئے دکھائی دیتے کہ
٭ہم تخریب کاروں کو نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔ہم یہ کر دیں گے ۔۔،ہم وہ کر دیں گے اس کے بعد ذرا اس تصویر کا دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں
کسی بھی دھماکے ،تخریب کاری یا حادثے کے فوراً بعد الیکٹرانک میڈیا پر یہ بیانات اور خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ
٭وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے واقعے کا نوٹس لے لیا فلاں فلاں افسر یا ذمہ داران کو معطل کر دیا گیا
٭ واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ،فوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا
٭اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب ،کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا ،تحقیقات کوبہت جلد منظرِعام پر لایا جائے گا وغیرہ وغیرہ
زندگی جب معمول کی جانب چلتی ہے لوگ پُرانے واقعات کو بھول بھال کر اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں کہ اچانک پھر کوئی دلخراش سانحہ رُونماہوتا ہے جو لوگوں کو خون کے آنسو رُلا دیتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر پھر وہی سالہا سال پُرانی اور گھِسی پِٹی فلم ایک با ر پھر چلا دی جاتی ہے اعلیٰ حکام تو ایک سرسری سا خانہ پرُی والابیان جاری کرتے ہیںمگرخوشامدی ٹولہ اور ان کے ہمنوا
باقائدہ ڈھولکیاں باجے اور سارنگیاں لے کر ایک با پھر ”راگ درباری“کا الاپ پوری شدومد سے شروع کر دیتے ہیں ،
اخبارات اور الیکڑانک میڈیاپر پھر سے وہی بیانات دہرائے جانے لگتے ہیں
بقول اطہر شاہ خان المعروف مسٹر جیدی تم اگر مارو گی کھینچ کر بیلن
میری جانب سے بھی چمٹا آئے گا
یہ بیان اصلی ہے اخباری نہیں
آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا