حال ہی میں اپنی منگنی توڑنے والی پاکستانی معروف ٹک ٹاکر و کونٹینٹ کریئٹر جنت مرزا کو اب کسی پر بھروسہ نہیں ہے۔جنت مرزا نے سوشل میڈیا انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنی خوبصورت نئی تصویریں شیئر کی ہیں۔اِن تصویروں میں جنت مرزا کو دیہات میں خوبصورت نظاروں کے درمیان دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض پروگرام تاحال تاخیر کا شکار ہے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے17 مئی تک اجلاس میں پاکستان کا معاملہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔اسٹاف لیول معاہدہ نہ ہونے پر عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈنگ بھی نہیں ہو گی۔ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے پر بجٹ سازی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف دوست ملکوں کی فنڈنگ کی یقین دہانی پر بھی مطمئن نہ ہوا۔پاکستان نے مزید ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کا پروگرام دیا، وہ بھی ناکافی قرار دیا گیا۔ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے نویں جائزہ کے لیے بیشتر شرائط پوری کیں، پاکستان نے نویں جائزے پر اسٹاف لیول معاہدے کی خاطر 170 ارب روپے ٹیکس منی بجٹ کے ذریعے لگائے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ 9 فروری کو ہونا تھا جو تاخیر کا شکار ہے۔
جہلم (محمد زاہد خورشید) ایڈن ایجوکشن کے زیر اھتمام ایک روزہ ٹیچرز ٹرنینگ کا انعقاد
دیوان سعید ہوٹل جی ٹی روڈ جہلم میں کیا گیا۔ جس کے منتظیم و نگران محمد آصف ایریا سیلز مینجر تھے۔ ورکشاپ میں پچاس سے زائد پرائیویٹ سکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ کرام نےشرکت کی۔ اس موقع پر ماسٹر ٹرینر محمد عمران نے تدریسی طریقہ کے حوالے سے اساتذہ کو ورکشاپ کروائی۔ ورکشاپ کے اختتام پر تمام پرنسپل صاحبان نے ایڈن ایجوکیشن کی اس کاوش کو سراہایا اور ٹرینر محمد عمران کے انداز تدریس کی خوب تعاریف کی کہ اگر تمام اساتذہ حقیقت میں اپنا انداز تدریس ایسا کرلیں تو طلباء کی تعلیمی بنیاد انتہائی مضبوط ہوجائے۔
اسلام آباد: سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وکیل خواجہ طارق رحیم کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی ہے، جس نے سپریم کورٹ کے موجودہ اعلیٰ ترین جج کی ساس اور ان کے درمیان ہونے والی فون کال کے بعد پیدا ہونے والے تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے۔مبینہ آڈیو کلپ میںثاقب نثار طارق رحیم کے ساتھ 2010 میں سپریم کورٹ کی طرف سے لیے گئے “سو موٹو” نوٹس پر سات رکنی بنچ کے فیصلے پر بات کر رہے ہیں اور ان سے معاملے کی تحقیقات کرنے کو کہہ رہے ہیں۔سابق اعلیٰ جج کو فیصلے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سنا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ان کے لیے ’’باہر نکلنے کا راستہ‘‘ فراہم کرتا ہے۔گفتگو میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت پر آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے پر بھی بات کی گئی ہے۔رحیم نے ایک اور توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے کے منصوبے کا ذکر کیا، جس میں نثار نے منیر احمد کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا۔طارق رحیم نے ذکر کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات سلب کرنے کے کیس سے متعلق تین رکنی بینچ کا فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔ آٹھ رکنی بنچ نے پہلے اس کیس پر حکم امتناعی جاری کیا تھا۔تین رکنی بینچ نے حکومت کو 27 اپریل تک اسنیپ پولنگ کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا اور حکم کی تعمیل نہ کرنے پر سنگین نتائج کا انتباہ بھی دیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے ایک سالہ دور میں اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے 6 سابق وزرا کو مجموعی طور 4 ماہ زیرِ حراست رکھا گیا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 4 سالہ دور میں اپوزیشن کے 2 سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر اور ایک سابق وزیرِاعلیٰ سمیت 12 سابق وزرا کو مجموعی طور پر 9 سال اور 6 ماہ زیرِ حراست رکھا گیا۔ پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں زیرِ حراست رہنے والے 12 اپوزیشن رہنماؤں میں سے 11 کو نیب حراست میں رکھا گیا۔
ان رہنماؤں پر نیب مقدمات تھے تاہم 11 میں سے صرف 2 رہنماؤں، نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی جبکہ متعدد رہنماؤں کے خلاف مقدمات نیب آرڈیننس کے بعد ختم ہوگئے ہیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات کیس بھی عدم ثبوت کی بنا پر ختم ہوگیا ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس اب بھی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ موجودہ حکومت میں پی ٹی آئی رہنماؤں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
پی ڈی ایم کی حکومت کے ایک سالہ دور میں پی ٹی آئی کے 5 رہنماؤں کو اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو زیرِ حراست رکھا گیا۔ شہباز گِل کو عوام کو اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے، اعظم سواتی کو اداروں کے خلاف متنازع ٹویٹ کرنے، فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے خلاف بیان دینے، علی امین گنڈاپور کو پولیس کے خلاف اسلحہ اکٹھا کرنے اور اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دینے کی مبینہ آڈیو کی بنا پر، علی زیدی کو مبیّنہ جعلسازی جبکہ شیخ رشید احمد کو آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام لگانے پر گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنما کتنا عرصہ زیرِ حراست رہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس کے سلسلے میں 17 اگست 2019 کو لاہور موٹروے سے گرفتار کیا گیا۔ 7 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 25 فروری 2020 کو انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 2 مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کیس میں 15 اکتوبر 2018 کو لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کرنے کے 4 ماہ بعد 14 فروری 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ دوسری مرتبہ 28 ستمبر 2020 کو ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور 7 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 23 اپریل 2021 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب ٹیم نے 10 جون 2019 کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا جبکہ 6 ماہ بعد 12 دسمبر 2019 کو آصف زرداری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ وفاقی وزرا کتنا عرصہ زیرِ حراست رہے؟
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایل این جی ریفرنس میں نیب نے کراچی سے 7 اگست 2019 کو گرفتار کیا۔ 4 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 23 دسمبر 2019 کو مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں نیب نے راولپنڈی سے 23 دسمبر 2019 کو گرفتار کیا اور 2 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد احسن اقبال کو 25 فروری 2020 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ کو منشیات کیس میں لاہور موٹروے سے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا اور 6 ماہ بعد 24 دسمبر 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق کو پیراگان سٹی کیس میں نیب نے 11 دسمبر 2018 کو لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کیا جنہیں 15 ماہ حراست میں رکھنے کے بعد 17 مارچ 2020 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں 29 دسمبر 2020 کو احسن اقبال کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور 6 ماہ بعد 23 جون 2021 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ نواز شریف کی سزا اور علاج کے لیے لندن روانگی
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو 13 جولائی 2018 کو لندن سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ نواز شریف اور مریم نواز کو پاناما کیسز میں سزا ہونے پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تاہم 2 ماہ بعد 19 ستمبر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
احتساب عدالت میں ٹرائل مکمل ہونے پر نواز شریف اور مریم نواز کو قید کی سزا سنا دی گئی جس پر 24 دسمبر 2018 کو نواز شریف اور مریم نواز کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور بعد ازاں کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا۔ 26 اکتوبر 2019 کو نواز شریف کو طبّی بنیادوں پر 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا اور بعد ازاں علاج کی غرض سے نواز شریف 19 نومبر 2019 کو لندن روانہ ہوگئے۔ موجودہ حکومت میں پی ٹی آئی رہنما چند دن جیل رہے
پی ڈی ایم کی حکومت نے اپوزیشن کی گرفتاریوں کے سلسلے کا آغا شہباز گِل سے کیا۔ عوام کو اداروں خصوصاً پاک فوج کے خلاف بغاوت پر اکسانے پر وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل کو 9 اگست 2022 کو عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر بنی گالا سے گرفتار کیا گیا جبکہ 35 دن زیرِ حراست رہنے کے بعد 15 ستمبر کو وہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔ اعظم سواتی کو پاک فوج کے خلاف متنازع ٹویٹ کرنے اور اداروں کے خلاف بیان دینے پر 2 ماہ میں 2 مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ 13 اکتوبر 2022 کو پہلی مرتبہ جبکہ 27 نومبر کو دوسری مرتبہ گرفتار کیا گیا، بعد ازاں 3 جنوری 2023 کو اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے افسران کو دھمکیاں دینے کے کیس میں 25 جنوری 2023 کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا جبکہ 7 دن بعد یکم فروری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے امورِ کشمیر علی امین گنڈاپور کو پولیس کے خلاف اسلحہ اکٹھا کرنے اور اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دینے کی مبیّنہ آڈیو کی بنا 6 اپریل روز قبل گرفتار کیا گیا ہے اور وہ تاحال حراست میں ہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر علی زیدی کو 15 اپریل کو مبیّنہ جعلسازی کے کیس میں گرفتار کیا تھا تھا تاہم 20 جنوری کو ان کی ضمانت منظور ہوگئی۔ جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کو آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنانے کا الزام لگانے پر یکم فروری کو گرفتار کیا گیا اور 15 دن حراست میں رکھنے کے بعد 16 فروری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
کسی بھی مسئلے کو حل کرنے اور سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھا جائے, جبکہ کسی بھی مسئلے کو دبانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے نظریاتی طور پر پر سرد خانے میں پھینک دیا جائے۔ موجودہ صدی میں استعمار نے دیگر مسائل کی مانند کچھ ایسا ہی مسئلہ فلسطین کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی۔ مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادوں کو ایک کالم میں بیان کرنا کسی بھی طور پر ایک دریا کو کوزے میں بند کرنے سے کم نہیں۔ یہ کام اگرچہ مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے، تاہم اپنی بساط کے مطابق ہم کوشش کریں گے کہ حقِ قلم ادا ہوجائے۔ ہم سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔
صہیونی کسے کہا جاتا ہے؟
چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔ جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دو بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔ یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔
صہیونیوں کی پہلی کانفرنس:
یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئٹزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔
انجمن محبّین صہیون کی تشکیل:
بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نے محبّین صہیون اس لئے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے۔ اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔
صہیونیوں کا مختصر تاریخچہ:
فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔ حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے، چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔ حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔ دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیٰؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کر لو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔
جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔ اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہارا رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔
40 سال بعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔ اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا، لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔ اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔
چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔ حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے، ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔ بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔
98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا، لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی، جو ایک مکار یہودی تھا۔ 64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ رومی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔ بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔
حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔ پھر یہ سپین میں داخل ہوئے، جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا، سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔ پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔ پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا۔
پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا، پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔ چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔
فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک:
فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔ اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔ 1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی، البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔ اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خود مختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔
انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئٹزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ صحافی اپنے موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔
اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی۔ چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے، یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے قربانیوں کی نہ صرف بھینٹ چڑھا دیتے تھے، بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔ چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔ چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔
مسئلہ فلسطین بین الاقوامی سطح پر:
مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔ دوسرے دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔
اسرائیل کی تشکیل میں اقوام متحدہ کا کردار:
اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔
اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کا تعاون:
اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمامتر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے۔ اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔ اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔
اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار :
اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر “ٹرومن” نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔
عرب افواج اور اسرائیل کے مابین جنگ:
برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔
سامراج کی اہم چالیں:
سامراج نے سب سے پہلے تو اسے فلسطین کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی، لیکن اپنی اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس مسئلہ کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔ ایک طرف تو اس مسئلہ کو عربوں کا مسئلہ کہا گیا اور دوسری طرف عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے سازش شروع کر دی گئی۔ سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کا طلوع اور مسئلہ فلسطین:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے بصیرت، نظریئے اور خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں 1979ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن بصیرت اور نظریئے کے اعتبار سے کسی مسیحا کے منتظر تھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب نے جہاں پورے عالم اسلام کے دکھوں کا مداوا کیا، وہیں فلسطینیوں کے دردوں کی مسیحائی بھی کی اور پوری ملت اسلامیہ کو تمام تر علاقائی وابستگی اور فرقہ وارانہ کشیدگیوں سے بالا تر ہوکر متحد ہونے کا درس دیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے استعمار نے مسئلہ فلسطین کو دبانے کے لئے اسے محض عربوں کا مسئلہ قرار دے دیا تھا، جبکہ اسلامی انقلاب آنے کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا۔ دنیائے اسلام کو اپنی طاقت کا احساس ہوا اور مسلمانوں میں ازسرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے کی سوچ زندہ ہوگئی۔ بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم القدس قرار دیکر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس روز بین الاقوامی سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا پیغام دیا۔ یوں فلسطین کا مسئلہ جسے استعمار نے مقامی اور عربی بنا کر سرد خانے میں پھینکنے کی کوشش کی تھی اور دبانا چاہا تھا، ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسلامی اور نظریاتی بن کر ابھر آیا اور اس وقت فلسطین استعمار کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا ہوا ہے۔
مصنوعی ذہانت سافٹ ویئر انجینئرنگ کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جو ایسے کاموں کو انجام دینے کے لیے موزوں مشینیں بنانے کے بارے میں فکر مند ہے جو عام طور پر انسانی سوچ کو سمجھ سکتی ہیں۔ جب کہ نقلی ذہانت متعدد طریقوں کے ساتھ ایک بین الضابطہ سائنس کے، AI میں پیشرفت اور گہرائی سے سیکھنے، خاص طور پر، بنیادی طور پر ٹیکنالوجی کے ہر شعبے میں نقطہ نظر میں تبدیلی لا رہی ہے۔
انسان کا بنایا ہوا شعور مشینوں کو انسانی دماغ کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے، یا انہیں بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مزید برآں، سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کی ترقی سے لے کر سری اور الیکسا جیسے شاندار ساتھیوں کی تیاری میں مدد دیتا ہے، نقلی ذہانت رفتہ رفتہ روزمرہ کے امور کے لیے ضروری بنتی جا رہی ہے – اوراس پر ہر صنعت میں علاقائی تنظیمیں وسائل خرچ کر رہی ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعےتمام چیزوں پر غور کیا جاتا ہے، یہ فریم ورک عام طور پر انسانی دماغی صلاحیتوں سے جڑے کام انجام دے سکتے ہیں – جیسے گفتگو کو سمجھنا، گڑبڑ کو ٹھیک کرنا اور ڈیزائن کو پہچاننا۔ وہ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ معلومات کی اتنی بڑی مقدار کو کیسے کرنا ہے، اپنی ذہانت سے کام کو انجام دینے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر لوگ انسان کی بنائی ہوئی ذہانت کے سیکھنے کے طریقے کو منظم کریں گے، بہترین انتخاب تیار کریں گے اور خوفناک چیزوں کو نیچے رکھیں گے۔ پھر بھی، کچھ انسانوں کے بنائے ہوئے انٹیلی جنس فریم ورک کا مقصد بغیر انتظام کے سیکھنا ہوتا ہے – مثال کے طور پر کمپیوٹر گیم کو بار بار کھیلنا جب تک کہ وہ بالآخر اصولوں اور جیتنے کا طریقہ طے نہ کر لیں۔
شعیب حبیب میمن اینڈ فرینڈز مختلف مسائل پر توجہ مرکوز کرتے نظر آتے ہیں جن پر قابو پانا ضروری ہے، بشمول تعلیم میں وقت اور وسائل کی سرمایہ کاری، تعلیمی فوائد سے محروم افراد کے لیے نئے مواقع لانا، اور صاف پانی کی جنگ کو ختم کرنا۔ شعیب ٹھٹھہ اور سندھ بھر میں کام کرتا ہے، سب کے لیے ایک خوشگوار، صحت مند اور محفوظ زندگی پیدا کرنے کے مقصد کے ساتھ۔
فوڈ سیکٹر توجہ کا ایک اور شعبہ ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوڈ پیکجز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ان لوگوں کے غذائیت کے معیار کو بلند کیا جاتا ہے جن کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، وہ ہاؤسنگ سیکٹر میں لوگوں کی مدد کے ذریعے ہاؤسنگ انڈسٹری میں ایسے مواقع تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جو شاید ان کے لیے پہلے ناممکن تھے، بے گھر افراد کو رہائش تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں، اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے لڑتے ہیں۔
شعیب حبیب عالمی سطح پر افراد اور کمیونٹیز کو درپیش چیلنجز سے بخوبی واقف ہیں۔ اس طرح، دماغی صحت کے چیلنجوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے اور کینسر کے ظلم کا مقابلہ کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ درپیش بہت سے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ہم ان کے خلاف لڑنے کے لیے متحد ہیں۔
خیراتی ادارے کا یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان غریبوں اور پسماندہ افراد کے لیے فراخدلانہ رویہ رکھتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان وبائی امراض، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی کساد بازاری سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر، پاکستان میں لاکھوں لوگ اپنے آپ کو سانس لینے کے لیے صرف تھوڑی مقدار میں کھانا کھاتے ہیں۔ ہر رات، وہ بغیر کسی یقین کے سوتے ہیں کہ کل کھانے کے لیے کافی کھانا ملے گا یا نہیں۔ اگلا کھانا کہاں سے آئے گا اس ابہام کی اس حالت کو ‘غذائی عدم تحفظ’ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر، ایک شخص کو کم از کم 1800 kcal فی دن توانائی کی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ غذائی قلت کا باعث بنتا ہے جو پاکستان کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں موجود ہے۔
چونکہ اوسط یومیہ آمدنی عموماً اتنی کم ہوتی ہے کہ زیادہ تر غریب خاندانوں کے پاس ایسے وسائل کی کمی ہوتی ہے جو اچھی اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔ جو غریب مسلسل بھوکے رہتے ہیں وہ غذائیت کا شکار ہیں۔ وہ اپنے روزمرہ کے کام کرنے کے لیے درکار توانائی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں کھاتے۔ ان کی غذائیت کی وجہ سے ان کے لیے مطالعہ، کام یا جسمانی سرگرمیاں کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غذائیت کی کمی خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے زیادہ تباہ کن ہے۔ لہذا، بچوں کو بچانے اور خیرات کے ذریعے پاکستان میں غریب خاندانوں کی مدد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دو سال سیلاب جیسی تباہ کاریوں اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے سخت رہے ہیں جس کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جب سے CoVID-19 وبائی بیماری آئی ہے، تباہ کن اثرات کہیں زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ ملازمتوں سے محرومی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں خوراک کی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا۔
اس مشکل وقت میں، شعیب حبیب میمن سیلاب سے متاثرہ افراد، ضرورت مند خاندانوں کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
جناب شعیب حبیب میمن ایک فری لانس سماجی کارکن، عالمی خیر سگالی سفیر، کاروباری شخصیت ہیں۔ مسٹر میمن ایک پاکستانی شہری ہیں اور ضلع ٹھٹھہ، صوبہ سندھ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے کئی خیراتی اداروں کے ساتھ کام کیا، اس کے علاوہ مسٹر میمن اپنے آبائی شہر میں ایک کامیاب کاروبار کے مالک ہیں اور چلاتے ہیں۔ مسٹر شعیب حبیب میمن نے 21 فروری 2023 کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی پاکستان میں میچ 10 پر HBL PSL8 HamareHeroes ایوارڈ وصول کیا۔ مسٹر میمن کے پروفیشنل نیٹ ورک لنکڈ اِن پر 50 ہزار کے قریب فالوورز ہیں، انہوں نے لنکڈ اِن پر پاکستانی ٹیلنٹ کو شیئر اور پروموٹ کیا ہے۔
جناب شعیب حبیب میمن کو 21 ستمبر 2019 کو FUNVIC فاؤنڈیشن اٹلی کی طرف سے “Book for Peace” ایوارڈ ملا اور وہ غربت زدہ اور نظر انداز خاندانوں کے لیے رضاکارانہ فلاحی کاموں میں باقاعدگی سے شامل ہیں۔ مسٹر میمن مستحق خاندانوں اور یتیم بچوں کو خوراک اور انسانی ہمدردی کے منصوبوں کے ساتھ مدد کرتے ہیں، جیسے کہ پینے کے صاف پانی کے لیے ہینڈ پمپ اور کنوؤں کی تنصیب، مالی ضرورت میں طالب علموں کی مدد کرنا، کپڑے اور رہائش فراہم کرنا، خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات، اور غریب اور معذور مریضوں کی مدد کرنا۔ . مسٹر میمن کو ریپبلک آف گھانا (مغربی افریقہ) سے ہیومینٹیرین ایوارڈ گلوبل (HAG) نے 18 ستمبر 2021 کو مسٹر شعیب حبیب میمن کو سماجی خدمات کے لیے سرٹیفکیٹ آف اچیومنٹ پیش کیا۔
مسٹر شعیب حبیب میمن نے بھی حاصل کیا: جنوری 2022 میں انسانی ہمدردی کے طور پر تعریف کا سرٹیفکیٹ (ایمبیسڈر بکس فار پیس ایوارڈ) FUNVIC یورپ سے، جو یونیسکو کلب آف (برازیل) کا حصہ ہے۔
مسٹر میمن جون 2022 سے سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں، انہوں نے سندھ میں رضاکارانہ طور پر سماجی بہبود کے کام کے لیے شہید بے نظیر بھٹو ٹیلنٹ ایوارڈ 2022 بھی حاصل کیا۔
مزید پڑھ
دیکھیں Hamaray Heroes powered by Kingdom Valley پاکستان کے ہیروز کا اعزاز 🇵🇰
شعیب حبیب میمن کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالیں
مکمل ویڈیو دیکھیں: https://youtu.be/1B6-do_Dapw
https://www.facebook.com/groups/20925828240896
براہ کرم نیچے دیئے گئے لنکس پر میری سرگرمیاں دیکھیں
24 نیوز چینل کی طرف سے کور کی گئی کہانی
https://www.facebook.com/318976465674122/posts/817801695791594/
مارک فٹز کا انٹرویو بیسٹ اسٹارٹ اپ ایشیا پر شائع کیا گیا
https://beststartup.asia/shoaib-habib-memon-producing-a-happier-healthier-and-safer-life-for-all/
The High Asia ERALD میں شامل کہانی
https://thehighasia.com/shoaib-habib-memons-social-services/
تخلیقی معاشرے پر عالمی بحران (انسانیت) کے بارے میں بین الاقوامی بحث
یوٹیوب پر دیکھیں
https://fb.watch/eVDA1U3Wdc/
شعیب حبیب میمن
ای میل Shoaibhmemon@gmail.com
کال/واٹس ایپ
00923142090252
رپورٹ (محمد شہباز گولڑوی) سیاسی سماجی شخصیت سید ضیاء علی شاہ ترمذی کی دختر کی شادی تقریب زم زم مارکی رفیق آباد جی ٹی روڈ لالہ موسیٰ منعقد ہوئی جس میں سیاسی سماجی کاروباری سرکاری شخصیات کی بھر پو رشرکت بارات کا استقبال سید فیض الحسن شاہ ایم این اے پی ٹی آئی میاں اختر حیات ایم پی اے چوہدری لیاقت علی ایم پی اے چودھری فدا مرکزی رہنما پی ٹی آئی چوہدری محمد اعظم ایس پی چودھری احمد چوہدری نصیر احمد بین الاقوامی شہرت یافتہ سید محمد مقدس کاظمی پروفیسر ڈاکٹر عابد نزیر سرجن مرزا محمد اشرف ایم ایس تحصیل لیول ہسپتال لالہ موسی ڈاکٹر ملک نوید احمد چائلڈ سپیشلسٹ تحصیل لیول ہسپتال ۔ ۔ ۔ ۔ لالہ موسی ڈاکٹر فیصل ڈاکٹر کاشف بشیر آسٹریلیا ڈاکٹر شمائلہ بشیر چودھری جاوید ذیلدار خواص پور چودھری طارق صدر ایمن تاجران شوز لالہ موسیٰ الحاج پیر عبدالستار معصومی اورنگزیب صرافہ حاجی محمد اقبال منہاس حاجی غضنفر اقبال میناس سید علی رضا شاہ کلیوال سیداں حاجی محمد اسلم سیالوی ایم دی مدنی ریسٹورینٹ لالاموسٰی علی عمران بھٹی جنرل کونسلر یاسین بٹ ڈپٹی کوآرڈینیٹر بلدیہ لالہ موسی سید مٹھو شاہ بخاری حاجی شبیر احمد بھٹی کوآرڈینیٹر بلدیہ لالہ موسیٰ اعجاز بٹ کونسلر محمد شہباز مغل ریس فخرے ڈنمارک ملک صادق پیر ندیم اختر نوری عمران ارشد بھٹی ذیشان اقبال بھٹی محمد فاروق شیخ شہباز احمد شیخ شہزاد احمد شیخ نوید احمد شیخ حمزہ شیخ عارف سید مقصود شاہ ترمذی سید اقبال شاہ سید جلال شاہ یہ آصف علی شاہ سید تنویر شاہ رانیوال سیداں مرزا ظفر قاری علامہ عمران نقشبندی قاری محمد منیر قاری حسن قاری علا محمد عثمان ذوالفقارعلی کپڑے والے ملک ناصر علی ملک عرفان ملک الطاف کونسلر محمد شہباز گولڑوی سینئر صحافی راجہ شہزاد احمد سینئرصحافی فران علی احتشام بھٹی فرحان بھٹی امیر ڈار ماسٹر امین ماسٹر حفیظ ٹھیکیدار محمد ارشد مبین قریشی سلمان قریشی حافظ عثمان قریشی محمد اسلم میاں خاں بٹ اشرف بہاری سہیل اشرف بلال اشرف محمد اقبال چودھری طارق جاوید کھٹانہ عامر کھٹا نہ ملک آصف کوآرڈینیٹر گیس بجلی قلب عباس بٹ جنرل سیکرٹری پاکستان تحریک انصاف لالہ موسیٰ ناصر حیات پی ٹی سی ایل مہر امجد پروفیسر ملک اکبر علی سید مدثر شاہ ایڈوکیٹ چودھری رؤف ایڈوکیٹ سید تا سیر شاہ ایڈوکیٹ شیخ جواد قمر سید توقیر شاہ فدا احمد جنجوعہ رہنما پی ٹی آئی سید جعفر شاہ سید ناصر شاہ سید عامر شاہ گل پنجاب پولیس علی جٹ چوہدری نعیم خادم حسین کھوکھر قدیر قریشی سید محمد علی شاہ میر ڈاکٹر دانش علی محمداعظم بٹ طارق بٹ نومان افضل سلمان افضل ماسٹر حاجی عبدالحمید آصف رفیق لون ایڈوکیٹ ڈاکٹر رحیم سیول اسپتال لالہ موسی عبدالخلیل اعسم مغل مولوی منیر پہلوان محمد شریف قریشی سید اصغر علی شاہ حاجی مرزا بشیر احمد میاں ریاض نوید چوہدری خاور ایڈوکیٹ رہنما پی ٹی آئی سراۓعالمگیر چوہدری فہد الیاس مرکزی رہنما پی ٹی آئی شیخ نوید اللہ صدیقی شیخ محمد عارف شیخ اسد رفاقت بٹ پنجاب پولیس مہر مبین احمد مہر ارشد مہر محمد شفیق علی جیم خانہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ثنا خوان مصطفیٰ وحید بٹ نوری نصیر احمد علامہ پیر سید طارق شاہ ترمذی اور سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور دولا پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل کا استقبال کیا
یہ مقبوضہ کشمیر ہے۔ یہاں عوام کی سسکیاں کوئی نہیں سنتا۔خواص میں سے کچھ بکے ہوئے ، کچھ سہمے ہوئے اور کچھ محاصرے میں ہیں۔میڈیا کی یہاں تک رسائی نہیں اور عالمی برادری کو اس سے کوئی غرض نہیں۔یہاں کے مکینوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تو پھر انسانی حقوق کیسے! گلی کوچوں میں جابر اور غاصب فوج گشت کر رہی ہے، کہیں سے مدد کی امید نہیں اور نہ ہی کسی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یہاں پر ساتھ ہی آزاد کشمیر اور پاکستان ہے۔ جہاں پر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں، حج کرتے ہیں، عیدِ قربان پر قربانی بھی دیتے ہیں اور زکواۃ بھی ادا کرتے ہیں۔۔۔
ساٹھ ہجری میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ لوگ اذانیں دے رہے تھے اور نمازیں پڑھ رہے تھے، حج کر رہے تھے اور زکوۃ بھی ادا کر رہے تھے، خواص بھی آج کل کی طرح کچھ بکے ہوئے، کچھ سہمے ہوئے اور کچھ محاصرے میں تھے۔ لوگوں کو اپنی نمازوں، حج، زکواۃ اور عبادات کی تو فکر تھی لیکن انہیں یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کِس کی غلامی کر رہے ہیں۔ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے تھے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کو تو اپنا آقا مقامِ نبوّت کی وجہ سے مانتے ہیں لیکن وہ یزید جیسے فاسق کو اپنا آقا کیوں مان بیٹھے ہیں؟َ
اُس وقت حضرت امام حسینؑ دیکھ رہے تھے کہ عوام کو شعور نہیں ہے، خواص بکے ہوئے اور یا پھر ڈرے ہوئے ہیں جبکہ فوج اور طاقت جابر و غاصب حکومت کے پاس ہے۔ایسے میں حضرت امام حسینؑ اگر چاہتے تو وہ بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ جب عوام بے شعور ہیں، خواص بے حِس ہیں اور فوج اور طاقت تو جابر و غاصب حکومت کے پاس ہے لہذا مجھے بھی آرام سے کسی مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھانی چاہیے یا کوئی دینی مدرسہ کھول لینا چاہیے۔ اُس غفلت، بے حِسی اور خاموشی کے دور میں امام عالی مقام ؑ نے اذانیں دینے اور نمازیں پڑھانے کے بجائے لوگوں کو غُلامی کے خلاف بیدار کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کو ایک منفرد قسم کی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ آپ سے پہلے جتنے بھی شہدا نے قربانیاں دیں وہ اسلام کے دفاع اور اسلام کو مضبوط کرنے کیلئے تھیں لیکن آپ نے جو قربانی دینی تھی وہ خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے کیلئے تھی۔آپ نے ایک ایسی قربانی دینی تھی جس سے دنیا کا ہر انسان چونک جائے، بیدار ہو جائے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ ایک ایسی منفرد قربانی کیلئے آپ کو کسی بڑی لشکر کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایک خاص حکمتِ عملی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ آپ نے کوئی لشکر اکٹھا نہیں کیا ، نہ ہی ہتھیار جمع کئے اور نہ ہی طبلِ جنگ بجایا۔آپ نے واضح طور پر یہ کہا کہ میں قربان ہونے کیلئے جا رہا ہوں، لیکن ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ میں یزید کو قتل کرنے یا اُس کا تختہ اُلٹنے کیلئے جا رہا ہوں۔آپ نے قُربانی کا راستہ اختیار کیا اور اُس کیلئے خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کا انتخاب کیا۔یہی ایک سچے مجاہد کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ جہاد کا آغاز اپنے آپ سے کرتا ہے۔ لوگ حضرت امام حسینؑ کا راستہ روک رہے تھے لیکن امام اُنہیں سمجھا رہے تھے کہ اب رُکنے سے نہیں اُٹھنے سے کام چلے گا۔ اِمام نے اپنا ہدف یزید کا تخت اُلٹنا نہیں بلکہ قربان ہونا بتایا۔ آپ نے یہ انوکھا ہدف اختیار کر کے یہ سمجھا دیا کہ کچھ لوگ ہدف اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اُس ہدف کے ذریعے کسی حکومت یا مقام و مرتبے تک پہنچ جائیں لیکن کچھ لوگ کسی ہدف کو اِس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ ہدف باقی رہے۔ اُس زمانے میں غُلامی کے خلاف قُربانی دینا لوگوں کا ہدف نہیں رہا تھا۔
حضرت امام حسینؑ نے غُلامی کے خلاف قربانی دے کے قُربانی دینے کے جذبے کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسینؑ نے بظاہر یزید کے تخت کو نہیں اُلٹا اور آپ لق و دق صحرا میں اپنے ساتھیوں سمیت بھوکے و پیاسے شہید ہوگئے۔ آپ کے خاندان کی مستورات کو قیدی بناکر کوچہ و بازار میں پھرایا گیا لیکن آپ کی قربانی کے بعد لوگوں کو ہوش آگیا۔لوگ خوابِ غفلت سے بیدار ہو گئے، لوگوں نے غُلامی کی غلاظت کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔ آپ کے بعد پے درپے قربانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سے پہلے لوگ صرف اپنی عبادات میں مگن تھے لیکن اس کے بعد قیام ہی قیام کرنے لگے۔ توّابین نے قیام کیا، مختار ثقفی نے تلوار اٹھائی، عبداللہ ابن زبیر نے میدان سجایا، اہلِ مدینہ نے یزید کی غُلامی سے انکار کیا۔۔۔لوگوں نے یزید کی غُلامی میں اپنے جھکائے ہوئے سر اُٹھا لئے یہانتک کہ بنو امیّہ کا تخت تاراج ہو گیا۔ یہ سب حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کی بدولت ہوا۔ آپ نے غاصب حکومت کو اپنے حصے کا دھکا دیا اور دوسروں کیلئے راستہ بنا دیا، اس کے بعد لوگ اپنے اپنے حصّے کا دھکا دیتے چلےگئے۔ لوگوں کو سمجھ آگئی کہ قربان ہو کر بھی قابضوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ فتح کا ایک راستہ قربانی بھی ہے۔ مسلمانوں نے یہ جان لیا کہ غُلامی سے نجات کیلئے بیداری اور بیداری کیلئے قُربانی ضروری ہے۔
آج جب ساری دنیا کشمیریوں سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمران اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں۔ عوام کی دینداری نماز و روزے کی حد تک ہی محدود ہے۔ کوئی نہیں جو کشمیریوں کو قابض ریاست سے نجات اور آزادی دلانے کیلئے میدان میں اُترے۔ ایسے میں کشمیریوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ غُلامی کی غلاظت کے خلاف لوگوں میں شعور کو زندہ رکھیں۔ بے شک خالی ہاتھ ہیں لیکن حضرت امام حسینؑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قربانیوں کے ذریعے اقوامِ عالم کے ضمیر کو جھنجوڑیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کریں۔ حسینؐ کا پیغام ۔۔۔۔کشمیریوں کے نام یہی ہے کہ جس دور کے مسلمان بے ضمیر اور بے حِس ہو جائیں اُس دور میں نماز، روزے اور حج سے بڑی عبادت ، غُلامی کے خلاف لوگوں کو بیدار کرنا ہے۔