عمران خان یا شہباز شریف: اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کا تناسب کس دور میں زیادہ رہا؟
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے ایک سالہ دور میں اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے 6 سابق وزرا کو مجموعی طور 4 ماہ زیرِ حراست رکھا گیا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 4 سالہ دور میں اپوزیشن کے 2 سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر اور ایک سابق وزیرِاعلیٰ سمیت 12 سابق وزرا کو مجموعی طور پر 9 سال اور 6 ماہ زیرِ حراست رکھا گیا۔
پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں زیرِ حراست رہنے والے 12 اپوزیشن رہنماؤں میں سے 11 کو نیب حراست میں رکھا گیا۔
ان رہنماؤں پر نیب مقدمات تھے تاہم 11 میں سے صرف 2 رہنماؤں، نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی جبکہ متعدد رہنماؤں کے خلاف مقدمات نیب آرڈیننس کے بعد ختم ہوگئے ہیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات کیس بھی عدم ثبوت کی بنا پر ختم ہوگیا ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس اب بھی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
موجودہ حکومت میں پی ٹی آئی رہنماؤں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
پی ڈی ایم کی حکومت کے ایک سالہ دور میں پی ٹی آئی کے 5 رہنماؤں کو اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو زیرِ حراست رکھا گیا۔ شہباز گِل کو عوام کو اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے، اعظم سواتی کو اداروں کے خلاف متنازع ٹویٹ کرنے، فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے خلاف بیان دینے، علی امین گنڈاپور کو پولیس کے خلاف اسلحہ اکٹھا کرنے اور اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دینے کی مبینہ آڈیو کی بنا پر، علی زیدی کو مبیّنہ جعلسازی جبکہ شیخ رشید احمد کو آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام لگانے پر گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنما کتنا عرصہ زیرِ حراست رہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس کے سلسلے میں 17 اگست 2019 کو لاہور موٹروے سے گرفتار کیا گیا۔ 7 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 25 فروری 2020 کو انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 2 مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کیس میں 15 اکتوبر 2018 کو لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کرنے کے 4 ماہ بعد 14 فروری 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ دوسری مرتبہ 28 ستمبر 2020 کو ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور 7 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 23 اپریل 2021 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب ٹیم نے 10 جون 2019 کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا جبکہ 6 ماہ بعد 12 دسمبر 2019 کو آصف زرداری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
وفاقی وزرا کتنا عرصہ زیرِ حراست رہے؟
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایل این جی ریفرنس میں نیب نے کراچی سے 7 اگست 2019 کو گرفتار کیا۔ 4 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد 23 دسمبر 2019 کو مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں نیب نے راولپنڈی سے 23 دسمبر 2019 کو گرفتار کیا اور 2 ماہ زیرِ حراست رہنے کے بعد احسن اقبال کو 25 فروری 2020 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ کو منشیات کیس میں لاہور موٹروے سے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا اور 6 ماہ بعد 24 دسمبر 2019 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق کو پیراگان سٹی کیس میں نیب نے 11 دسمبر 2018 کو لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کیا جنہیں 15 ماہ حراست میں رکھنے کے بعد 17 مارچ 2020 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں 29 دسمبر 2020 کو احسن اقبال کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور 6 ماہ بعد 23 جون 2021 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
نواز شریف کی سزا اور علاج کے لیے لندن روانگی
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو 13 جولائی 2018 کو لندن سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ نواز شریف اور مریم نواز کو پاناما کیسز میں سزا ہونے پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تاہم 2 ماہ بعد 19 ستمبر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
احتساب عدالت میں ٹرائل مکمل ہونے پر نواز شریف اور مریم نواز کو قید کی سزا سنا دی گئی جس پر 24 دسمبر 2018 کو نواز شریف اور مریم نواز کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور بعد ازاں کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا۔ 26 اکتوبر 2019 کو نواز شریف کو طبّی بنیادوں پر 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا اور بعد ازاں علاج کی غرض سے نواز شریف 19 نومبر 2019 کو لندن روانہ ہوگئے۔
موجودہ حکومت میں پی ٹی آئی رہنما چند دن جیل رہے
پی ڈی ایم کی حکومت نے اپوزیشن کی گرفتاریوں کے سلسلے کا آغا شہباز گِل سے کیا۔ عوام کو اداروں خصوصاً پاک فوج کے خلاف بغاوت پر اکسانے پر وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل کو 9 اگست 2022 کو عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر بنی گالا سے گرفتار کیا گیا جبکہ 35 دن زیرِ حراست رہنے کے بعد 15 ستمبر کو وہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔ اعظم سواتی کو پاک فوج کے خلاف متنازع ٹویٹ کرنے اور اداروں کے خلاف بیان دینے پر 2 ماہ میں 2 مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ 13 اکتوبر 2022 کو پہلی مرتبہ جبکہ 27 نومبر کو دوسری مرتبہ گرفتار کیا گیا، بعد ازاں 3 جنوری 2023 کو اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے افسران کو دھمکیاں دینے کے کیس میں 25 جنوری 2023 کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا جبکہ 7 دن بعد یکم فروری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے امورِ کشمیر علی امین گنڈاپور کو پولیس کے خلاف اسلحہ اکٹھا کرنے اور اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دینے کی مبیّنہ آڈیو کی بنا 6 اپریل روز قبل گرفتار کیا گیا ہے اور وہ تاحال حراست میں ہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر علی زیدی کو 15 اپریل کو مبیّنہ جعلسازی کے کیس میں گرفتار کیا تھا تھا تاہم 20 جنوری کو ان کی ضمانت منظور ہوگئی۔ جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کو آصف زرداری پر عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنانے کا الزام لگانے پر یکم فروری کو گرفتار کیا گیا اور 15 دن حراست میں رکھنے کے بعد 16 فروری کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔