کانسپریسی تھیوری کی عمدہ مثال نذر حافی
کانسپریسی تھیوری سے آشنائی ضروری ہے۔ اسے سازشی مفروضہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ایسے مفروضے ہوتے ہیں جنہیں تحقیق اور مستندات کے بغیر ہی لوگ تسلیم کر لیتے ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کی لاعلمی اور جہالت کو ایک خاص سمت میں اپنے فائدے کیلئے جہت دینا ہوتا ہے۔ گویا یہ لوگوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھانے کا ہتھکنڈہ ہے۔ ہماری اکثریت انہی سازشی مفروضوں پر بہت جلدی ایمان لے آتی ہے۔ سازشی مفروضوں کا خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب اربابِ دانش اور صاحبانِ قلم ایسے مفروضات کے شکار ہو جائیں۔چونکہ صاحبانِ قلم اگر کسی سازشی مفروضے کی بھینٹ چڑھ جائیں تو وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ دوسری طرف لوگ تو بینڈ ویگن تھیوری سے متاثر ہوتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر ہی زندگی گزارتےہیں لہذا کانسپریسی تھیوری کے ساتھ جب بینڈ ویگن تھیوری کو جمع کیا جاتا ہے تو پھر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
ان سازشی مفروضوں میں سے ایک مفروضہ ایران میں اہل سنت کی مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی خا صا مقبول ہے۔ اس کے مبلغین میں سے ایک سمیع اللہ ملک بھی ہیں۔وہ ایک معروف کالم نگار ہیں۔ بڑے عرصے سے راقم الحروف کا ان سے قلبی لگاو ہے۔ ملک کے متعدد اخبارات میں ان کے کالمز باقاعدگی سے چھپتے رہتے ہیں۔ سوچا کہ انہی کے ایک کالم کی مدد سے کانسپریسی تھیوری کی وضاحت کی جائے ۔ یہ کالم روزنامہ اوصاف نے چھاپا اور اس کا عنوان تھا “جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔” اِن کے 25 اکتوبر2021ء کو شائع ہونے والے اس کالم پر قلم فرسائی سے پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ تحقیق کی دنیا میں معلومات کا تبادلہ، قلمی مکالمہ اور علمی نقد بہت ضرروی ہے۔ تجزیہ کاری کے دوران انسان کو اپنے ذاتی عقائد اور جذبات کو ایک طرف رکھ کر ٹھوس اعداد و شمار اور حقائق سے کام لینا چاہیے۔ چنانچہ مذکورہ کالم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ معزز کالم نگار ایران کے حوالے سے یا تو خود کانسپریسی تھیوری کے شکار ہیں اور یا پھر اپنے خاص اعتقادات اور میلانا ت و رجحانات کے باعث ایران کے خلاف کانسپریسی تھیوری کا سہارا لے رہے ہیں ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کانسپریسی تھیوری کو سمجھنے کا شعور ہونا چاہیے اور کانسپریسی پر مبنی تحریروں و تقریروں کو کسی بھی صورت فاصلوں اور بدگمانیوں میں نہیں بدلنا چاہیئے۔
تو آیئے اب مذکورہ کالم کے قابلِ گرفت گوشوں میں کانسپریسی تھیوری کی موجودگی کو لمس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کالم میں ایک جملہ ہر صاحبِ مطالعہ اور منصف مزاج انسان کو چونکانے کیلئے کافی ہے۔ وہ جملہ یہ ہے کہ “امریکہ، بھارت، اسرائیل اور ایران چاروں یار” ہیں۔ یہ جملہ سو فیصد حقائق کے بر عکس ہے چونکہ آج پوری دنیا میں عالمِ کفر کے سامنے اکیلا ایران ڈٹ کر کھڑا ہے۔ اس ڈٹنے کی وجہ سے سارے عالمِ کفر نے مِل کر ایران کو اقتصادی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ چنانچہ آج تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود ایران میں افراطِ زر، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحران گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔
کانسپریسی تھیوری کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہماری توجہ اس پہلو پر رہے کہ یہی ایران جب اسلامی انقلاب سے پہلے عالمِ کُفر کا نوکر تھا تو عالمی استعمار ایران کو آج کے سعودی عرب اور عرب امارات سے بھی زیادہ اہمیت دیتا تھا، لیکن اب اسلامی انقلاب کے بعد چونکہ ایران عالمِ اسلام کی حرّیت اور آزادی کی بات کرتا ہے، فلسطین و کشمیر اور یمن کے لوگوں کے اسلامی و انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی سرزمینوں سے استعمار کے انخلا کی بات کرتا ہے، لہذا وہ تنِ تنہا اغیار کے ہاتھوں استعمار کے ظلم کی چکی میں پِس رہا ہے۔
یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے اگر ایران صرف اسرائیل کے ساتھ تجارت کی بات ہی شروع کر دے، یعنی صرف تجارت کا عندیہ ہی دیدے تو استعماری طاقتیں آج بھی ایرانیوں کے منہ موتیوں سے بھر دیں گی۔ کانسپریسی تھیوری کے مقابلے میں ٹھوس شواہد سے یہ حقیقت ہر غیر متعصب انسان کیلئے روشن ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کی آبرو اور عزت فقط اور فقط ایران کے دم قدم سے قائم ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر ایران بھی عرب ممالک کی طرح طاغوت کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے تو پھر اس کے بعد دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا کیسا چہرہ دکھائی دے گا۔
اس کالم میں یہ بھی کہا گیاہے کہ “ایران حماس کا دشمن ہے۔” کالم نگار نے یہ دعویٰ اس لئے کیا ہے چونکہ ہماری اکثریت کو حماس اور ایران کے تعلقات کا علم نہیں ہے۔ لہذابین السطور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ عوام کو تحقیق سے کوئی غرض نہیں۔ چنانچہ اس سازشی مفروضے کو سمجھنے کیلئے اگر کوئی فقط جنرل قاسم سلیمانی شہید کے جنازے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تقریر کو ہی سُن لے تو اسے ایران اور حماس کے روابط کا صحیح اندازہ ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ کالم نگار کے بقول انہیں عربی پر بھی کافی عبور حاصل ہے۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ وہ خود بھی بغیر مترجم کے اسماعیل ہنیہ کی تقریر سُن اور سمجھ سکتے ہیں۔ اگر وہ خود ہی کانسپریسی تھیوری کے شکار ہیں تو یقیناً مذکورہ تقریر سننے کے بعد ان کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ تقریر میں اسماعیل ہنیہ نے جہاں اور بہت کچھ کہا، وہاں یہ بھی کہا کہ قاسم سلیمانی شہیدِ قدس ہے۔ یہ جملہ تین مرتبہ اسماعیل ہنیہ نے دہرایا اور یہ بھی کہا کہ حماس کو ادویات، اسلحے و غذا سمیت جو مدد بھی ملتی ہے، وہ صرف ایران سے ملتی ہے۔
کالم میں یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ ایران اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ ہم چونکہ کانسپریسی تھیوری کو سمجھنا چاہتے ہیں، لہذا ہم اگر فقط سعودی عرب اور ہندوستان کی تجارت کے اعداد و شمار ہی چیک کر لیں اور سعودی عرب و ایران دونوں کی کشمیر کے مسئلے پر فعالیت بھی دیکھ لیں، اسی طرح پاکستان میں جتنے بھی خودکش بمبار، ٹارگٹ کلر، لشکر اور نیٹ ورکس ہیں، سانحہ اے پی ایس پشاور کے نونہالوں کے قاتلوں سے لے کر پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلنے والوں اور پولیس و آرمی کے آفیسرز، بیوروکریٹس، قوالوں اور نعت خوانوں کے قاتلوں، نیز مساجد اور اولیائے کرام کے آستانوں پر دھماکے کرنے والوں کا ریکارڈ بھی چیک کر لیں، تو ہم پر یہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ کون پاکستان کے بجائے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ اس سے ہمیں بخوبی یہ اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح کانسپریسی تھیوری کے ذریعے حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے۔
محقق کو ایران کے انڈیا سے تجارتی تعلقات کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ ایران نے اپنی ساری اقتصادی مجبوریوں کے باوجود کبھی بھی کشمیریوں اور فلسطینیوں کی لاشوں پر ٹرمپ کے کندھے سے کندھا ملا کر تلواروں کا رقص نہیں کیا اور جام نہیں چھلکائے۔ کشمیر و فلسطین پر ایران کے اصولی موقف کی ساری دنیا خصوصاً خود کشمیری و فلسطینی عوام و خواص اور حکومت پاکستان بھی معترف ہے۔ یہ سب حقائق زاویے تاریک رکھنے کیلئے کالم میں یہ سوال اٹھایا گیاہے کہ “سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے قریبی حلیف ہم سے کیوں دور ہوئے۔؟”
یہ سوال ایک لاعلم اور حالات حاضرہ سے انجان قاری کے جذبات ابھارنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ صرف ایک لاعلم انسان کو ہی آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سعودی عرب سے پاکستان کن وجوہات کی بنیاد پر دور ہوا ہے ورنہ حالاتِ حاضرہ پر نگاہ رکھنے والا ہر عقلمند انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
کانسپریسی تھیوری کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے یہ بھی جان لیجئے کہ انہوں نے محترم ظفر ہلالی صاحب اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا حوالہ دے کر بھی سعودی عرب کی وکالت کرنے کی کوشش کی۔ محترمہ تو شہید ہوگئی ہیں، البتہ اللہ کا شکر ہے کہ ظفر ہلالی صاحب ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ چنانچہ صحافت و تحقیق کا ذوق رکھنے والے کچھ اہلِ نظر نے جب ظفر ہلالی صاحب سے رابطہ کیا تو ظفر ہلالی صاحب نے ایسے کسی واقعے سے بھی اور سمیع اللہ ملک صاحب کو جاننے سے بھی صریحاً انکار کر دیا۔ اب یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ اُن کے دوست ظفر ہلالی صاحب اُن کو کیوں نہیں پہچان رہے اور اُن کی ایسی معلوماتی ملاقاتیں کہاں پر ہوا کرتی ہیں۔ خیر ہم اب آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
کالم میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ “اور آج یہ عالم ہے کہ ایران میں کوئی سنی پارلیمنٹ ممبر نہیں بن سکتا، جبکہ تین یہودی پارلیمنٹ ممبر ہیں۔” یہ بھی موجود ہے کہ “ایرانی دارالحکومت تہران میں سنیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں جبکہ اسی شہر میں 25 گرجا گھر، 16 مندر، 6 گردوارے اور 20 آتش کدے موجود ہیں۔
” ہم ابلاغِ عامہ کے طالب علموں کیلئے کوئی نامانوس دلیل لانے کے بجائے چند روشن دلائل پیش کرتے ہیں۔ مثلا کالم نگار کے منصفانہ طرزِ عمل کیلئے ضروری تھا کہ وہ ایران کے دورے کرنے والے اہل سنت کے اکابرین مولانا سمیع الحق مرحوم یا قاضی حسین احمد مرحوم سے ہی کبھی اس بارے میں پوچھ لیتے اور یا پھر ابھی مولانا فضل الرحمان، محترم لیاقت بلوچ یا مولانا شیرانی صاحب سے ہی استفسار کر لیتے۔ اسی طرح پاکستان میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں ہر سال ایران سے دیوبندی حضرات جاتے ہیں، انہی میں سے کسی کا انٹرویو لے لیتے۔
کوئی بات نہیں ہمارا مقصد فقط کانسپریسی تھیوری کی وضاحت کرنا ہے۔ ہم بیان کئے دیتے ہیں کہ آج کے دور میں یہ ساری معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ آپ ماوس کو کلک کرکے چند سیکنڈز میں وکی پیڈیا سے یا کسی بھی ایرانی اہلسنت سیاستدان، عالم دین یا اہم شخصیت سے رابطہ کرکے حقیقت جان سکتے ہیں۔ اس وقت ایران کی پارلیمنٹ میں اٹھارہ نشستیں اہل سنت حضرات کی ہیں، اسی طرح 25 اکتوبر کو کالم لکھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ 17 اگست 2021ء کو ایران کی بحریہ کے سربراہ یعنی چیف آف نیول اسٹاف مقرر ہونے والے مسٹر شہرام ایرانی کا تعلق اہل سنت سے ہے۔ کالم نگار نے جہانِ اسلام کے متعلق اکیسویں صدی کے سب سے بڑے اور حیران کر دینے والے دینی فتوے کا ذکر بھی نہیں کیا۔ وہ فتوی ٰ یہ ہے کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی اہانت کو حرام قرار دیا ہے۔ اس فتوے سے پہلے اہل تشیع کا ایک بڑا گروہ ایسا کرنے کو عظیم عبادت اور ثواب شمار کرتا تھا۔ اس فتوے نے پوری دنیا کے اہلِ تشیع کو ایک نئی سوچ، جدید ڈگر اور وسیع بنیادوں پر جہان اسلام کے ساتھ مکالمے کا میدان فراہم کیا ہے۔
سازشی تھیوری کی گہرائی کو سمجھنے کیلئے ہمیں یہاں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ایران کے صرف رہبرِ اعلیٰ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ سارے ہی مسلمہ شیعہ مجتہدین اور مراجع کرام کا یہی فتویٰ ہے۔ ایرانی شیعہ اتھارٹیز کے ہاں اہل سنت کا جو مقام ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ محترم سمیع اللہ ملک صاحب نے جیسا کالم اہلِ تشیع اور ایران کے خلاف لکھا ہے، ایسا کالم ایران میں کوئی بھی اہل سنت کے خلاف لکھنے یا چھاپنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
اس کے علاوہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں 9 عدد یعنی اہلِ سنت کی تعداد کے تناسب سے بھی زیادہ اہلِ سنت کی مساجد موجود ہیں۔ صرف سیستان و بلوچستان میں اہلِ سنت کی چھ ہزار سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔
ایران میں اہل سنت کے دینی مدارس کے حوالے سے یہ آن دی ریکارڈ حقیقت ہے کہ ایرانی اہلِسنت کے دینی طلباء و طلبات کو ایران کے ولی فقیہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے خصوصی طور پر ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ایرانی حکومت کی طرف سے اہل سنت کے دینی طلباء کو دی جانے والی مراعات و خدمات اہل تشیع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سخت مزاج والے شیعہ اس بات پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ آخر میں ہم کچھ حوالہ جات بطورِ دلائل پیش کر رہے ہیں، تمام قارئین انٹرنیٹ پر وقت ضائع کئے بغیر خود ان حوالہ جات کو جانچ پرکھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶۴﴾ “کہدیجئے! اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم لوگ سچے ہو۔”
قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہمیں ساشی مفروضوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ صاحبانِ فہم و فراست کو یہ دعوت دینی چاہیے کہ اگر اُن کے پاس ایسے کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایران کی پارلیمنٹ میں اور ایران کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی سُنی نہیں ہے، اسی طرح تہران میں اہلِ سنّت کی کوئی مسجد نہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو وہ بھی ضرور حوالہ جات اور شواہد کے ساتھ ہمارے علم میں لائیں۔ ہمیں فراخدلی کے ساتھ اُن کے ثبوتوں اور شواہد کے بارے میں بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ تحقیق کے بعد جو بھی حقیقت ہو، اُس کا سب کے سامنے اعتراف کرنا چاہیے۔ اگر اس کے باوجود اگر کانسپریسی تھیوری پر عمل کرنے والے یا اس کے شکار ہونے والے محترم سمیع اللہ ملک صاحب یا پھر کوئی اور بھی شخص قانع نہ ہو تو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے محققین کو حقائق جاننے کیلئے ایران کے اہلِ سنت سیاستدانوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد، آئمہ جمعہ و جماعت نیز تہران کی مساجد میں نمازیں پڑھانے والے اہل سنت علمائے کرام کے ساتھ آن لائن سیشنز کرنے چاہیے۔
مذکورہ کالم میں موجود سازشی تھیوری کو سمجھنے کیلئے مزید دلائل:
آپ صرف کلک کر کے چیک کرتے جائیں:
1۔ صرف گذشتہ حکومت کے دوران اہل سنت کی خواتین اور مرد سفارتکاری سمیت جن پوسٹوں پر موجود تھے، اس کی ایک مختصر فہرست
https://b2n.ir/f57952
2۔ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔ رہبرِ اعلی ٰ کا فتویٰ
https://b2n.ir/j05479
3۔ اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دینے کے بارے میں دیگر شیعہ مجتہدین کا فتویٰ
https://b2n.ir/p84030
4۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کی طرف سے اہل سنت میں سے بحریہ کا چیف مقرر کرنا اور علمائے اہلِ سنت کا بھرپور خوشی کا اظہار کرنا
https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i391727
5۔ تہران میں اہل سنت کی مساجد کی تعداد وکی پیڈیا پر ملاحظہ کیجئے۔
https://b2n.ir/x38144
6۔ تہران میں اہل سنت کی مساجد کا پتہ پیشِ خدمت ہے، گوگل پر سرچ کیجئے یا کسی ایرانی اہلِ سنت سے معلوم کر لیجئے:
1- مسجد صادقیه، واقع در فلکهی دوم صادقیه
2- مسجد تهران پارس، واقع در خیابان دلاوران
3- مسجد شهر قدس، واقع در کیلومتر 20 جادهی قدیم
4- مسجد خلیج فارس، واقع در بزرگراه فتح
5- مسجد النبی، واقع در شهرک دانش
6- مسجد هفتجوب، واقع در جادهی ملارد
7- مسجد وحیدیه، واقع در شهریار
8- مسجد نسیم شهر، واقع در اکبرآباد
9- مسجد رضیآباد، واقع در سه راه شهریار
7۔ تہران میں اہلِ سنت کی مساجد اور نماز عید کا احوال ایرانی سائٹس پر دیکھ لیجئے
https://b2n.ir/j55681
8۔ ایرانی پارلیمنٹ کی 286 کرسیوں میں سے 18 نشستیں اہلسنت نمائندوں کیلئے مختص ہیں]
https://b2n.ir/y18022
9۔ اہلِ سنت کے دینی مدارس و مساجد کی شان و شوکت
https://b2n.ir/p86420
10۔ ایران میں خلفائے راشدین کے نام سے مساجد و پل اور سڑکوں وغیرہ کے نام اور ایران کی سنی کمیونٹی کے متعلق اہم رپورٹ
https://lubpak.net/archives/305119
11۔ ایران میں اہل سنت کے دینی مدارس پر مستند تحقیق
https://b2n.ir/a91015
اب آپ کے لئے ہم ایرانی اہلِ سنت کی کچھ ویب سائٹس کے لنک یہاں درج کر رہے ہیں، تاکہ آپ ان سے براہِ راست بھی رابطہ کرکے جانکاری حاصل کرسکیں:
12: ایرانی اہل سنت کی ستائیس دینی ویب سائٹس کا وزٹ کیجئے
https://b2n.ir/q50631
13: ایرانی اہل سنت کے دینی مدارس کی خبریں
https://b2n.ir/y92415
14۔ اہل سنت دینی مدارس کی خبریں
https://b2n.ir/h23772
15: حوزه علمیه فاروقیه اهل سنت گالیکش
ایڈرس: استان گلستان، محمودآباد، کلاله – گالیکش – مینودشت
ٹیلی فون نمبر: 01735834944
ویب سائٹ: http://gorgij.net/
16: بندر عباس کے دینی مدارس کی سائٹ
http://ziyaei.com/
17: ایرانی اہل سنت کا آن لائن دینی مدرسہ
18: اہل سنت کے دینی مدارس کا نصاب
https://b2n.ir/g49659
19: ایرانی اہل سنت کی مشہور و معتبر ویب سائٹ
http://www.islahweb.org/
20: سایت شورایٰ عالی مدارس اهل سنت:
http://www.bastakmd.com/
21۔ ایرانی اہل سنت کے دینی مدارس میں داخلے کا طریقہ کار اور سائٹ
https://b2n.ir/x00606