ڈاکٹر قیصر جعفری کے ساتھ بیس منٹ (ابو آیت)
چشمے اور کنویں میں فرق ہے۔ یہ فرق سمجھنا ضروری ہے۔ چشمہ میٹھا ہو یا نمکین خود ہی زمین کا سینہ چیر کر پھوٹتا ہے۔ جاندار اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ جبکہ کنواں زمین کی گہرائی میں خود کھودا جاتا ہے۔ جنہوں نے کسی کنویں کو کُھدتے دیکھا ہے، وہی اس کی اہمیت و قدر سے واقف ہیں۔ کھودنے والے کا ہدف پانی نکالنا ہوتا ہے۔ تاکہ یہ پانی لوگوں تک پہنچے۔ بس یہیں سے آزادی کی جدوجہد کو بھی سمجھئے۔ آزادی کے حصول کی خاطر ، جان جوکھوں میں ڈالی جاتی ہے۔ آزادی کا میٹھا پانی چشمے سے حاصل نہ ہو رہا ہو تو ، کنواں کھودنا ضروری و لازمی امر ہے۔ یہ کھدائی امید مانگتی ہے۔
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کا آن لائن سیشن اسی امید کی نشاندہی کرتا ہے ، مجھے اس سلسلے کا ساتواں پروگرام جوائن کرنے کا موقع ملا۔ مجھے اس پروگرام میں جو بات پسند آئی ہے وہ امید اور جدوجہد ہے۔ اس میں جب امکانات پر بات کی جاتی ہے تو خدشات کو بھی فراموش نہیں کیا جاتا۔ اس مرتبہ ڈاکٹر قیصر جعفری صاحب پہلے دورانیےکے مہمان تھے۔ انہوں نے بیس منٹ گفتگو کی۔
جعفری صاحب تاریخ کے لیکچرار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کے وقت عمداً جنم دیا گیا تھا۔ اب اہلیانِ کشمیر کے سامنے تین ممکنہ راستے ہیں۔ خودمختاری یا پاکستان و ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ ملنا ۔ انہوں نے پہلے پسِ منظر بیان کیا۔ ان کے مطابق جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس کے عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیاجانا چاہیے۔
پنڈت جواہر لال نے تہاڑ جیل سے شیخ عبداللہ کو، رہائی دے کر کہا کہ مسئلہ کشمیر کو ، چناب فارمولے کے تحت حل کرتے ہیں۔ پاکستان سے صدر ایوب نے بھی ، اس حل پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا ۔ اس کا ذکر شیخ عبد اللہ نے اپنی کتاب ، آتشِ چنار میں کیا ہے۔ حتی آزاد کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید بھی راضی تھے۔ حل تکمیل کے نزدیک تھا کہ نہرو فوت ہو گئے۔ ان کے بعد نواز شریف نے دوبارہ اس فارمولے پر کام شروع کیا۔ یہ موضوع ایک بار پھر زندہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر ، کارگل کا ایشو کھڑا کر دیا۔ اس طرح چناب فارمولا ، جنگ کی نظر کر دیا گیا۔ موصوف کے مطابق، اگر مسئلہ کشمیر ، چناب فارمولے کے مطابق حل ہو جاتا ، تو چین کے زیر تسلط کشمیر کا علاقہ ، جو کہ متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تھا، وہ بھی واگزار ہو جاتا ۔
ڈاکٹر قیصر جعفری صاحب نے ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ، اگر کشمیر کو چناب فارمولے کے مطابق حل کیا جاتا تو ، یہ تقسیم کشمیر ، عین تقسیم ہند کی طرح تھی۔ جغفرافیائی لحاظ سے دریائے چناب ہندو اور مسلم اکثریتی علاقوں کو تقسیم کرتا ہے۔ اس طرح آدھے کشمیری پاکستان میں اور آدھے ہندوستان میں شامل ہوتے۔ کشمیری مسلمان آپس میں بھی تقسیم ہو جاتے۔ نصف کشمیری اپنی مراد پا لیتے اور باقی اپنوں سے ہی ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاتے۔ اس طرح ان کی جدو جہد بے سود ہو جاتی۔ یوں چناب فارمولا بھی در حقیقت کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔لہذا ہمیں کسی جامع راہِ حل کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اندرون کشمیر بھی بعض اپنوں نے متحدہ جدو جہد آزادی کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ جس سے کشمیرکاز کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کی حکومت اپنی سفارتی فعالیت کا دائرہ وسیع کرے۔ اسی طرح پاکستانی عوام بھی اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچائیں ۔
ڈاکٹر جعفری کے مطابق پاکستانی حکمرانوں اور عوام دونوں کو کشمیر کاز کیلئے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اپنے قارئین کو ایک مرتبہ پھر یہ یاد دلاتے چلیں کہ کشمیر اور فلسطین سے ہمارا نظریاتی رشتہ ہے۔آج ہماری نئی نسل اپنے بزرگوں کے ہاتھوں نظریاتی موت کا نظارہ کر رہی ہے۔ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا ، ظالم کو ظالم نہ کہنا ، غیرجانبدار ہوجانا اور مظلوم کی مدد نہ کرنا بھی ظلم ہے۔ بالاخر جب بھی مظلوم متحد ہوکر کھڑے ہونگے ، تاریکی کی کالی رات چھٹ جائے گی۔ ضرور چھٹ جائے گی ، چونکہ ظالم بڑا نہیں ، ظلم بڑا ہوتا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا