جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات ( نذر حافی)
چناب فارمولے کا مسئلہ کشمیر سے گہرا تعلق ہے۔ بعض اسے ممکنہ حل سمجھتے ہیں جبکہ بعض اسے مکار بنئیے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس فارمولے کےبارے میں ہم بتاتے چلیں کہ یہ فارمولا ۱۹۶۰ میں سامنے آیا۔ اس کے متن سے آگاہی رکھنے والے اسے تقسیمِ کشمیر کا پہلا فارمولا بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ دریائے چناب کی بنا پر کشمیر کو تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔ مسٹر نہرو نے اس منصوبے کی پیشکش بذریعہ شیخ عبداللہ صدر ایوب کو کی تھی۔ اس کی دیگر تفصیلات شیخ عبداللہ کی کتاب ”آتش چنار‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ بعد ازاں مسٹر نہرو کی وفات کے باعث یہ فارمولا فراموشی کا شکار ہوگیا۔ایک لمبے وقفے کے بعد مسٹر واجپائی اور نواز شریف کے دور میں دوبارہ اسے سردخانے سے نکالا گیا۔دونوں طرف کی حکومتی قیادت چونکہ میزائل کے بجائے مارکیٹ پر توجہ دینے کی قائل تھی چنانچہ یہ فارمولا دوبارہ سفارتی سطح پر موضوعِ بحث بنا۔ یوں ایک مرتبہ پھر بڑی سطح پر افہام و تفہیم کا سلسلہ چل نکلا۔ اسی اثنا میں کارگل وار نے اپنا سر نکالا۔ کارگل جنگ نےاس فارمولے پر آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا۔ یوں سمجھئے کہ کارگل جنگ کا چناب فارمولے سے گہرا تعلق ہے۔
چناب فارمولا بھارت کیلئے تو قابلِ قبول ہے لیکن پاکستان کے نظریاتی حلقے مختلف وجوہات کی بنا پر اسے سختی سے مستردکرتے ہیں۔ اسے مسترد کرنے کی پانچ بڑی وجوہات ہیں:
۱۔یہ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے خلاف ہے
۲۔ اس میں کشمیریوں کی رائے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے
۳۔ یہ نظریہ پاکستان کے خلاف ہے
۴۔یہ کشمیر کے حصے بخرے کر کے اس کی تاریخ اور شناخت کے خاتمے کی اساس ہے
۵۔ یہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے منافی ہے
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کے پانچویں آن لائن سیشن میں چناب فارمولا زیرِ بحث آیا۔اس سیشن میں آزاد کشمیر کے ماہر تعلیم سید جواد کاظمی صاحب اور جہلم سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب نے اپنے تجزیات پیش کئے۔انہوں نے کشمیر کی تاریخی وحدت اور جغرافیائی شناخت کو باقی رکھنے کی بات کی، اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہونے والی کاوشوں میں سے ایک اہم کاوش چناب فارمولے کو قرار دیا۔اُن کے مطابق یہ فارمولا متنازعہ ہونے کے باوجود قابلِ عمل تھا، اور اس کے بعد اس سلسلے میں پیشرفت کا سلسلہ رک گیا ہے۔ چھٹے سیشن میں بلوچستان کے دینی و سیاسی رہنما مقصود ڈومکی صاحب اور آزاد کشمیر کے معروف شاعر، دانشور اور سابق بیوروکریٹ اکرم سہیل صاحب نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا۔اس موقع پر مقصود ڈومکی صاحب نے جہاں داخلی وحدت، کشمیر کاز کیلئے آواز بلند کرنے اور کشمیر کمیٹی کو فعال کرنے پر زور دیا ، وہیں اکرم سہیل صاحب نے بھی چناب فارمولے پر روشنی ڈالنے کے بعد کشمیر کے موضوع پر عظیم مکالمے اور تحریکِ آزادی کے دائرے کو تمام اہلیانِ کشمیر تک پھیلانے کی بات کی۔
فورم کے ساتویں آن لائن سیشن سے ڈاکٹر قیصر جعفری صاحب اور تجزیہ کار جناب محبوب اسلم صاحب نے خطاب کیا۔ یہاں ایک مرتبہ پھر چناب فارمولا زیرِ بحث آیا۔ڈاکٹر قیصر جعفری صاحب نے اس کے پسِ منظر اور ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک تو یہ فارمولا خود پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف تھا اور دوسرے اس پر عمل بھی نہیں ہو سکا۔لہذا اب تاریخی تناظر میں اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ وہ اسباب جو اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہیں، ہمیں علمی و تحقیقی بنیادوں پر ان کی شناخت کر کے ان کاخاتمہ کرنا چاہیے۔ جب تک ہم ان اسباب کا قلع قمع نہیں کرتے تب تک یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا۔ ان کے بعد محبوب اسلم صاحب نے تحریکِ آزادی کشمیر کا جائزہ لیتے ہوئے چناب فارمولے پر بھی بنیادی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی سفارتی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا اعادہ کرنے سے بچنا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا سیاسی و سفارتی اور عسکری و اخلاقی جمود توڑنا ہوگا۔انہوں نے کشمیریوں کو اُن کی قوتِ بازو پر اعتماد کرنے کی بات کی۔ اُن کے مطابق تقریریں، اخباری بیانات ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور اشک بہانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی جان و مال اور اپنی سر زمین کی حفاظت کیلئے کشمیری اپنی جنگ خود لڑیں۔ یہ ان کا پیدائشی، فطری اور سیاسی حق ہے۔ اپنے حق کیلئے لڑنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
قارئین کرام یاد رہے کہ مسئلہ کشمیر پر جس سفارتی ناکامی کا ذکر اکثر تجزیہ کار کرتے رہتے ہیں، وہ ناکامی صرف پاکستانی ایمبیسیز یا وزارت داخلہ و خارجہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس ناکامی کا حدود اربعہ سمجھنے کیلئے چناب فارمولے کے ساتھ ساتھ شملہ معاہدے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بھی تجزیہ ضروری ہے۔ان شااللہ اگلی اقساط میں ہم شملہ معاہدے اور سلامتی کونسل کی قردادوں پر بھی بات کریں گے۔
جاری ہے