گورکن(مائیکروافسانہ) ۔۔۔ تحریر : مرادعلی شاہد دوحہ قطر
آج میرے شہر کے سب سے بڑے شہر خموشاں(قبرستان)کا گورکن عبدالرحمان مانا ہے۔جو اٹھارہ سالہ بھر پور عمر شباب میں اپنے کام میں ہمیشہ مصروف و مست دکھائی دیتا ہے۔یہ پیشہ اس نے اپنی مرضی سے نہیں چنا بلکہ اس کا باپ رمضان جانا بھی اسی کام سے وابستہ تھا۔میں نے اپنے پچپن سے رمضان جانے کو سمارٹ جسم اور توتلی زبان سے ہر آنے جانے والے سے مسکراتے،ہنستے باتین کرتے دیکھا ،جب بھی کسی جنازہ پر قبرستان جانے کا اتفاق ہوا “جانے”کوہمیشہ صف اول میںبآواز بلندلڑنے کے سے انداز میں نصیحتیں کرتے یا شگفتہ بیانی میں صف اول میںپایا۔”جانے”نے بچوں اور غربا¾ کی قبر کھودنے میں کبھی مسرت کا اظہار نہیں کیا۔اس لئے کہ دام کم ملتے ہیں۔سنار،کھرل،اور راجپوتوں کی قبر کھودنے میں اس لئے انبساط و فرحت محسوس کرتا کہ دام اور طعام دونوں ہی اچھے نصیب میں ہوتے۔”جانے” کے ہاتھ اور زبان کبھی نہ رکتے تھے۔کبھی کبھار تو غمگین و غمزدہ وہ رشتہ دار جو اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے کے لئے آئے ہوتے ان کے ساتھ ایسے مزاح اور توتلا پن سے مزاح کے سے انداز میں باتیں کرتا کہ لووگ اپنا دکھ بھول کر زیر لب مسکرانا شروع کر دیتے۔موسمی اثرات نہ اس کے جسم اور نہ ہی اس کے کام کو متاثر کرتے۔گرمی،سردی،خزاں اور بہار موسم کوئی بھی ہو قبر منٹوں میں تیار۔کبھی کبھار تو قبل از وقت قبر کھود کے مرُدے کا منتظر بھی پایا گیا۔کہ آج نہیں تو کل کسی نہ کسی کو تو مرنا ہے۔کبھی کبھار کوئی راہگیر از راہ تفنن یہ پوچھ لیتا کہ جانے آج” دیہاڑی” بنی کہ نہیں تو جانا اپنی توتلی زبان سے شکوہ کناں ہوتا کہ بس آج تو” مندہ “ہی ہے۔فلاں محلہ سے ایک “چوچا “سا (بچہ)آیا تھا۔آجکل مندے ہیں۔یا کبھی کبھار میں نے اسے یہ بھی کہتے سنا کہ محلہ امرتسریاں سے آج کسی کے مرنے کا اعلان ہوا تھا مگر یہ محلہ سیانا ہے ۔اہل محلہ خود ہی ثواب کی نیت سے قبر کھود لیتے ہیں۔جب کبھی جانا یہ کہتا کہ آج مندہ ہے پتہ نہیں لوگوں نے مرنا چھوڑ دیا ہے۔تو میں سوچتا کہ” جانے” کو کون سمجھائے کہ مہنگائی کے اس دور میں لوگ روز مرتے ہیں اور روز ہی جیتے ہیں۔غربا¾ کہاں زندہ ہیں ۔یہ تو چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔یہ تو منتظر سروش ہیں کہ کب بلاوا آیا اور ان کا جسد خاکی،تابوت عصر سے تابوت تراب میں منتقل کر دیا جائے رمضان جانے نے چند سالوں سے گور کی گود میں پلنے والے ،بڑھاپے کے سہارے اپنے بیٹے عبدالرحمان کو بھی اپنے ساتھ ہی کام پہ لگا لیا ہوا تھا۔جیسا باپ ویسا بیٹا کے مصداق گرمی اور جاڑے میں اس کا بھی کبھی دل نہیں گھبرایا اور نہ ہی کبھی کسی مردے کو قبر میں اتارتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپے۔باپ سے چند ہاتھ پھرتیلا اور سرعت سے کام کرنے والا عبدالرحمان،آج ایک قبر کھودتے نہ جانے کیوں اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے کے ساتھ ساتھ،ہاتھوں میں رعشہ اور پاﺅں بوجھل بوجھل سے دکھائی دے رہے تھے۔وہ بچہ جو عہد بچپن ہی سے باپ کے ساتھ مرُدوں کو دفناتا چلا آرہا تھا۔کبھی بھی اس کی آنکھیں اشکبار نہ ہوئیں۔پھر آج ایسا کیا کہ اس کے ہاتھوں میں کپکپی،پاﺅں منوں بوجھل اور آنکھوں سے موتیوں کی لڑیاں جاری تھیںاس لئے کہ آج وہ اپنے ہاتھوں سے حقیقی باپ کا جسدِ خاکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس مٹی کے سپرد کر رہا تھا جس مٹی میں باپ نے ہزاروں ُمردوں کو اتارا تھا۔ہاتھ کانپ رہے تھے کہ انگلی تھامنے والا ہاتھ ہمیشہ کے لئے چھوٹ پاﺅں بوجھل تھے کہ اب ہنگامہ زمانہ میں اسے خود ہی زندگی کی راہیں اپنانا آنکھیں پر نم کہ اب باپ کی آنکھیں کبھی چشم سوال نہیں بس عبدالرحمان باپ کی قبر پہ مٹی کی آخری” مٹھی” ڈالتے ہوئے ،اشکبار آنکھوں،کپکپاتے ہونٹوں اتنا ہی کہ پایا ” ہائے میرا باپ”۔