کشمیر کی دلکشی کی کئی وجوہات ہیں۔آج ہم بات کشمیر کے کہساروں ، ریگزاروں، دریاوں، ندی نالوں، پگڈنڈیوں، جھیلوں اور باغات کے حُسن کی نہیں کریں گے۔ آج ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ سید علی ہمدانیؒ اور میر شمسالدین عراقیؒ جیسے اولیائے کرام کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے والی اس سرزمین کے دانشوروں کا ڈنکا آج بھی ساری دنیا میں بجتا ہے۔ کشمیر کا قدرتی حُسن اپنی جگہ لیکن اس کے ماتھے کا جھومر اس کے دانشمند اور مفکرین ہیں۔ نظریہ پردازی، اسلام کی حیاتِ نو، امت مسلمہ میں بیداری اور وحدتِ اسلامی کے حوالے سے مختصراً علامہ محمد اقبالؒ ، اور امام خمینیؒ کو ہی لے لیجئے ۔ اسی طرح اجمالاً ذکر کرتے ہیں کہ تصوف اور عرفان کے جہان میں قاضی فتح اللہ [خواجہ محمد صادق مرحوم]گلہار شریف کوٹلی، سیف الملوک والے میاں محمد بخشؒ میرپور ، سخی سائیں سہیلی سرکار مظفرآباد، حضرت شاہ حسین بخاری پیرچناسی، مائی للہ عارفہ سری نگر[کشمیری زبان کی پہلی صوفی شاعرہ]، شیخ نورالدّین ولی چرار شریف اور آیت اللہ کشمیریؒ جیسی عظیم شخصیات نے یہاں جنم لیا ہے۔
قومی و سیاسی اور اجتماعی خدمات کی بات کریں تو یہاں بڑی بڑی قد آور شخصیات پیدا ہوئی ہیں کہ جن میں سے نکیال کوٹلی آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نائیک سیف علی جنجوعہ کو ہی لیجئے آپ نے پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر حاصل کیا ہے، آگے آئیں تو آپریشن ردّالفساد کے پہلے شہید لفٹیننٹ راجہ خاور شہاب بھی کھوئی رٹہ کوٹلی آزاد کشمیر کے سپوت ہیں۔
البتہ یہ افسوس اور حسرت کی بات ضرور ہے کہ مسلمانانِ ہند کو پاکستان اور مسلمانانِ ایران کو اسلامی انقلاب دینے والی دونوں عظیم ہستیوں یعنی حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور حضرت امام خمینی ؒ کا آبائی وطن کشمیر ابھی تک غلام ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ اور حضرت امام خمینی ؒ نے کشمیر سے اپنی نسبت کو کسی بھی لمحے فراموش نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام خمینیؒ نے اپنی شاعری میں اپنے لئے ہندی ﴿ چونکہ اس وقت کشمیر ہند کے قبضے میں تھا﴾ کا تخلص استعمال کیا ہے۔اسی طرح علامہ اقبال ؒ بھی کشمیر سے ایک خاص عشق رکھتے تھے۔ آپ کے بقول :
سامنے ایسے، گلستان کے کبھی گھر نکلے ۔۔۔حبیب خجلت سے سرِ طور نہ باہر نکلے
ہے جو ہر لحظہ تجلّی گہ مولائے خلیل ۔۔۔عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے
مذکورہ بالا شعر سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کشمیر کیلئے ایک خاص قدرومنزلت کے قائل تھے۔ چنانچہ اقبال کو جس طرح اپنے حجازی ہونے کی نسبت عزیز ہے اُسی طرح کشمیری ہونا بھی اُن کے نزدیک ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو وہ ایک شعر میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
تنم گلی ز خیابان جنت کشمیر۔۔۔دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است
میرابدن جنت کشمیر کے باغات کا ایک پھول ہے اور میرا دل حریمِ حجاز سے جبکہ آواز شیراز ی ہے۔
اہلِ کشمیر کے بارے میں اقبال معترف ہیں کہ
زیرک و درّاک و خوش گل ملّتی۔۔۔در جہاں تر دستیِ او آیتی است[1]
ملت کشمیر ذہین، تیز بین اور خوب صورت ہیں ۔ وہ جہانِ ہنر کی علامت ہیں۔
آپ نے مسلسل کشمیریوں کو غلامی کا طوق اتارنے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کشمیریوں کی غلامی کو مسترد کرتے ہوئے ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں:
؎آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر۔۔۔کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک۔۔۔مردِ حق ہوتا ہے جب مرغوبِ سلطان و امیر
اسی طرح ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں :
پنجہ ظلم و جہالت نے براحال کیا۔۔۔بن کے مقراض ہمیں بے پروبے بال کیا
توڑ اس دست جفاکیش کو یا رب جس نے۔۔۔روح آزادیءِ کشمیر کو پامال کیا
آپ نے اُس زمانے میں کشمیریوں کی مظلومی کی خوب منظر کشی کی ہے۔ آپ کے الفاظ میں:
بریشم قبا خواجہ از محنتِ او۔۔۔نصیب تنش جامۂ تار تارے
(سرمایہ داروں کی ریشمی قبا ئیں کشمیریوں کی محنت کی بدولت ہیں،مگرخود کشمیریوں کے بدن پر پیوند لگا لباس ہے﴾
ہم یہاں پر یہ بھی بیان کرتے چلیں کہ ہر قوم میں کچھ غلام اذہان بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ علامہ محمد اقبال ؒ نے جہاں کشمیر اور کشمیریوں سے اپنی والہانہ محبت اورعشق کا اظہار کیا ہے وہیں غلامی کو قبول کرنے والے غلام ذہن کشمیریوں کی سرزنش بھی کی ہے:
کشمیری کہ با بندگی خو گرفتہ۔۔۔بتے می تراشد ز سنگِ مزارے
ضمیرش تہی از خیالِ بلندے۔۔۔خودی نا شناسے، ز خود شرمسارے
نہ در دیدۂ او فروغِ نگاہ ے۔۔۔نہ در سینۂ او، دلِ بے قرارے[2]
( ایساکشمیری جو غلامی کا عادی ہوکر سنگِ مزار سے بت تراشتا ہے، اس کا دل افکارِ بلند سے خالی ہے۔ وہ اپنی خودی اور مقام سے غافل اور اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ نہ اس کی آنکھ میں بصیرت کی بینائی ہے اور نہ اس کے سینے میں ولولہ سے بھرا ہوا مضطرب دل ہے۔)
علامہ اقبالؒ غلام دماغ کشمیریوں کو آئینہ دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کشمیری قوم ایک آزاد، باوقار اور غیور قوم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کشمیری ماضی سے ہی کوئی غلام قوم ہوں۔آپ کشمیریوں کی روشن تاریخ کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
در زمانے صف شکن ہم بودہ است۔۔۔چیرہ و جانباز و پُروم بودہ است
ملت کشمیرایک زمانے میں صف شکن ملت تھی۔۔۔ شجاع، جانباز اور بہادر و دلیر تھی[3]
آپ چونکہ کشمیریوں کے ماضی سے بخوبی واقف تھے اور ملت کشمیر کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ آپ کسی بھی طور پر یہ پسند نہیں کرتے کہ کشمیری اپنی جدوجہدِ آزادی سے دستبردار ہو جائیں۔ اس غیور ملت کی غلامی پر اقبال ؒ سخت کُڑھتے تھے، وہ کشمیریوں پر ڈوگرہ راج سے بہت آزردہ تھے، انہوں نے ۱۹۲۱میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے فکار و نظریات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا :
بادِ صبا اگر بچینوا گزر کنی۔۔۔حرمے زما بہ مجلسِ اقوام بازگو
دہقاں و کِشت وجود و خیاباں فروختند۔۔۔قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
اے باد صبا اگرجنیوا سے تیرا گزر ہو ہماری طرف سے اقوامِ متحدہ تک یہ بات پہنچا دے
کشمیر کے کِسان، مرغزار، ندیاں ، کھیتیاں اور باغات بیچ دئیے گئے ، پوری قوم کو کتنے سستے داموں بیچ دیا گیا
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظریات کو سامنے رکھا جائے تو اقبال ؒ مسلمانانِ ہند کیلئے جس طرح مصوّرِ پاکستان ہیں اُسی طرح مصورِ کشمیر بھی ہیں۔آپ کے نظریات و افکار کو جدید پیرائے میں آج کی کشمیری نسل کے لئے بیان کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی کو جہاں ہماری، اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور اجتماعی مدد کی ضرورت ہے وہیں کشمیریوں کو نسل در نسل علامہ محمد اقبال کے افکار و نظریت سے بھی متصل رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم علامہ اقبال ؒ کے افکار کے قالب میں تحریکِ آزادی کشمیر کی تعبیرِ نو سامنے لائیں۔
[1] (جاوید نامہ، ص 748/160)
[2] (پیامِ مشرق،ص 286/116)
[3] (جاوید نامہ،ص 749/161)آ