زوال پذیر صحافت کے جھروکوں سے نذر حافی
ہمارے ہاں پریشر گروپس، میڈیا مالکان اور طاقتور طبقات کا صحافت پر قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیری و تخلیقی صحافت اور Investigative جرنلزم کا صرف اب نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر پاکستانی صحافی مصدقہ اطلاعات تک پہنچ نہیں رکھتے، جبکہ آج کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں صحافی کو نامحرم سمجھنے کے بجائے ریاست کی آنکھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی معلومات اور اطلاعات تک رسائی کو ہر صحافی کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر کوئی بھی صحافی کسی بھی ریاستی، ملکی اور سرکاری شعبے میں معلومات کیلئے جا سکتا ہے۔ اسے احترام کے ساتھ تمام مطلوبہ مراسلات، دستاویزات، آمدن و خرچ اور خط و کتابت تک رسائی دی جاتی ہے۔ کوئی اہم مسئلہ ہو تو ایک صحافی کسی بھی اہم شخصیت کا فوری انٹرویو لے سکتا ہے۔
راقم الحروف کی معلومات کے مطابق آج بھی بعض ممالک میں ایک صحافی کو وزیراعظم کا انٹرویو لینے کے لئے صرف دس منٹ چاہیئے ہوتے ہیں۔ یہ تو باہر کی دنیا کی باتیں ہیں، ہمارے ہاں کسی بھی ادارے کی کارکردگی کو جانچنے کی کوشش کرنا، شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔ سرکاری مشینری، وزراء، بیوروکریٹس، محکمہ مال، میڈیا مالکان، عدالتوں کے معاملات، فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کو تو چھوڑیئے، آپ دینی مدارس، ٹرانسپورٹ اور ہوٹل مافیا کے خلاف بھی تحقیق کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ تحقیق تو دور کی بات، آپ ان کے بارے میں شفاف رپورٹنگ تک نہیں کر سکتے۔ ورنہ ذیشان اشرف بٹ جیسے لوگوں کا انجام دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے صحافی عام طور پر ٹریفک حادثات، سیاسی شخصیات کے بیانات، ریلیوں و مظاہروں، اغوا و گمشدہ، حادثات و آفات، دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی خبریں اور تصویریں بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اسی کو ہی انسانیت کی خدمت سمجھتے ہیں۔
چنانچہ اپنی اس رپورٹنگ کو سیڑھی بنا کر بعض افراد سیاستدانوں کے ہاں نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں، بعض فوج و پولیس سمیت کچھ نہ کچھ بیوروکریٹس وغیرہ سے دوستیاں بنا لیتے ہیں اور بعض کو شدت پسند مولوی حضرات بیٹھ کر لیکچرز دیتے ہیں اور وہ مولویوں کی دی گئی معلومات پر ٹیبل سٹوریز گھڑتے رہتے ہیں۔ فنڈڈ مولویوں اور مُغرض سرکاری افسران جیسے غیر مصدقہ ذرائع سے معلومات لینے کا صلہ مفت حج و عمرہ، پلاٹوں کی فراہمی، حکومتی وظیفے اور سرکاری وفود کے ساتھ سیر و سیاحت کی صورت میں ملتا ہے۔ ایسے ماحول میں صحافی تنطیمیں ایک ٹشو پیپر سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں صحافت پر گنے چُنے چند صحافیوں اور میڈیا مالکان کا قبضہ ہے اور وہی صحافت سے کمائی کر رہے ہیں جبکہ عام صحافی کو پان، سگریٹ، قُلفیاں اور آئس کریم بھیجتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بے شمار فرقہ پرست مولویوں نے بھی پریس کارڈ بنوا رکھے ہیں، وہ قومی مسائل کو حل کرنے کے بجائے عربی و عجمی کے معرکے، شیعہ و سُنی کا جہاد اور غزوہ ہند برپا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور پاکستان پر صرف اپنے ہی فرقے کا قبضہ دیکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیتے ہیں۔ باقی رہی سہی کسر ارطغرل غازی جیسے ڈراموں نے نکال دی ہے، یار لوگ ایسے ڈرامے دیکھ کر بھی کہانیاں لکھتے ہیں اور لوگوں کا دل لبھاتے ہیں۔
المختصر یہ کہ ہمارے ہاں صحافی کیلئے ٹریننگ، ملازمت کا تحفظ، آزادی فکر، پیشہ وارانہ معیار اور فرائضِ منصبی جیسی کوئی چیز نہیں۔ اکثر پروف ریڈرز، ایڈیٹوریل رائٹرز، رپورٹرز، کیمرہ مین، کاپی رائٹر، ایڈیٹرز و نیوز ایڈیٹرز اور تکنیکی عملے کے لوگ اپنی تنخواہوں کیلئے میڈیا مالکان کی منتیں اور ترلے کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ بعض تو خودکشی کی حد تک بھی جا چکے ہیں۔ یوں تو قلم کی طاقت کا فسانہ اب بھی سننے کو باقی ہے، لیکن قلم کے پیچھے سوچنے والے دماغ کو شدت پسندی، طاقتوروں کے خوف اور فکرِ معاش نے زنگ آلود کر دیا ہے۔ بلا شبہ اس وقت پاکستان میں انسانی حقوق اور سماجی شعور کیلئے تعمیری و تخلیقی صحافت جتنی اہم ہے، اُتنی ہی ریاست کی زندگی اور تداوم کیلئے بھی ضروری ہے۔ تاہم اس کی خاطر ہم میں سے کس کو کیا کرنا چاہیئے !؟ شاید اس سوال پر ہم میں سے کسی نے ابھی تک غور ہی نہیں کیا۔