تحصیل خیرپور کے اساتذہ کے نام نذر حافی
محمد گلزار حسین کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ کبھی وہ گلزار حسین فکشن رائٹر کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ وہی ہماری آشنائی کا دور تھا۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ علم و فکر کے جہان میں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ چنانچہ میرے سامنے ہی گلزار حُسین فکشن رائٹر سے ابو ولی اللہ خان بنے۔ لگتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے ان دنوں وہ گورنمنٹ پرائمری سکول بدھاں نمبر۲ تحصیل خیرپورٹامےوالی میں بطورِ معلم ، خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔ انہیں مصروف ہی رہنا چاہیے چونکہ ایسا انسان کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا جسے یہ یقین ہو جائے کہ تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں، یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔
خصوصاً جو لوگ انسانیت، شرافت، عدالت، اخلاق اور صاف گوئی جیسی اعلیٰ انسانی اقدار سے مزیّن ہوتے ہیں وہ اس انسانی علمی و فکری رشتے کے متبادل کے طور پر دنیا کے کسی بھی دوسرے رشتے کو نہیں سمجھتے۔ یہی وہ رشتہ ہے جس کے ناطے مخلوقِ خدا کا تعلق خدا سے جُڑتا ہے،اسی رشتے کی پاسداری کیلئے انبیائے کرام مبعوث ہوئے اور اسی رشتے کی بقا کیلئے نواسہ رسولﷺ نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔
اربابِ علم و دانش ہی اس امر کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہدایت کے دو اہم وسیلے قلم اور کتاب ہیں۔ محمد گلزار حسین کو خدا نے قلم سے لکھنے کے ساتھ ساتھ کتاب پڑھانے کی توفیق بھی عطا کی ہے۔اسی توفیق کی بنا پر وہ پنجاب ٹیچرز یونین کے پلیٹ فارم سے بھی فعال ہیں۔ اُن کے بقول پنجاب ٹیچرز یونین کی بنیاد محسن اساتذہ استاد مرحوم عبدالغفور غفاری اور استاد مرحوم اللہ بخش قیصر صاحب نے رکھی۔ اس یونین کا مقصد اساتذہ ِ کرام کے حقوق کا دفاع، سماج میں ان کے مقام و مرتبے کا تحفظ اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران انہیں درپیش مختلف مشکلات اور مسائل کے حل کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔ محترم وحید مراد یوسفی بطور مرکزی صدر پنجاب ٹیچرز یونین اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ گویا تنظیم کے مرکز اور صدر کا تعلق لاہور سے ہے۔ بہاولپور میں محمد گلزار حسین اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے سرگرم ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر آپ نے کسی بھی علاقے کی ترقی یا پسماندگی کا تخمینہ لگانا ہو تو وہاں کے اساتذہ کرام کی صورتحال کو دیکھ لیجئے، وہ جتنے مہذب، متمدّن،باشعور اور خوشحال ہونگے وہ علاقہ بھی اُسی تناسب سے مہذّب، متمدّن اور خوشحال ہوگا۔ جب ہم خوشحالی کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھئے کہ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں باشعور اور مہذب آدمی کیلئے خوشحالی تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کیلئے باعزّت روزگار بھی محال ہو گیا ہے۔
ہر طرف میرٹ کی پامالی، اقربا پروری، برادری ازم،رشوت ستانی اور دھونس کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں اساتذہ ِ کرام جیسا محترم اور سفید پوش طبقہ بھی انتہائی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ بہر حال مشکلات کی تاریکیوں میں شمعِ امید ہیں وہ لوگ جو تاریکی اور بادِ مخالف کے مقابل جلنے اور نور افشانی کی ہمت کرتے ہیں۔میں اپنے محترم محمد گلزار حسین اور اُن کی یونین سے منسلک دوستوں کیلئے اِن چند جملوں میں اپنے پیغام کو سمونا چاہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنا، سچائی کی آواز بننا، مظلوموں کی دادرسی کرنا، کمزوروں کو اُن کا حق دلانا، جہالت کے بتکدوں میں علم کی اذان دینا، یزیدوں کے معاشرے میں آزادی و حرّیتِ فکر کو پروان چڑھانا، اور بے شعور لوگوں کو اُن کے حقوق کا شعور دلانا۔۔۔یہ سب مشکل ہے بہت مشکل ہے، لیکن ان مشکلات سے آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔۔وہ اس لئے کہ بادِ مخالف سے چھوٹے موٹے پرندے اور پتنگے گھبرایا کرتے ہیں شاہین نہیں۔ خدا نے آپ کو علم اور قلم کی صلاحیت سے نوازا ہے، آپ جیسے دوست ہی فرعونوں کے مقابلے میں اقبالؒ اور قائداعظم ؒ کے شاہینوں جیسا کردار اداکر سکتے ہیں۔بس حکیم الامّت کی اس نصیحت کو گرہ لگا کر باندھ لیجئے:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق۔۔۔یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں۔۔۔فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مرد خلیق
nazarhaffi@gmail.com