امریکی صدر ٹرمپ کو بھی این آر او کی تلاش؟
نیو یارک(عظیم ایم میاں) وزیراعظم عمران خان سے دوستی اور پسندیدگی کا دعویٰ کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کو این آر او کی ضرورت آن پڑی ہے تاکہ صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہی انہیں مختلف الزامات، تحقیقات اور مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ کو اس بات کا قانونی اختیار ہے کہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر عدالت سے سزا یافتہ کسی بھی مجرم کو اپنے صدارتی اختیار کے تحت معافی دے کر رہا کر سکتے ہیں اور اس سال انہوں نے اخلاقی جرم میں سزایافتہ اپنے ایک ذاتی دوست کو معافی دیکر رہا کروایا ہے۔امریکی صدر کو انتقامی معافی کے عنوان سے معافی دینے کا اختیار صدر پاکستان کو حاصل رحم کی اپیل منظور کرنے کے اختیار سے خاصا مختلف ہے اور ہر امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے جس کو پاکستانی این آراو کانام دیا جا سکتا ہے۔صدر ٹرمپ کے اس معافی دینے کا اطلاق صرف وفاقی معاملات اور مقدمات پر ہوتا ہے جبکہ صدر ٹرمپ کےخلاف بعض الزامات اور تحقیقات وفاقی سطح اور قوانین کےتحت التواء میں پڑے ہوئے ہیں کیونکہ امریکی صدر مملکت کو ان کے صدارتی عہدہ اور میعاد کے دوران کسی عدالت یا مقدمہ میں نہیں بلایا جا سکتا، اُدھر صدر ٹرمپ کے خلاف نیو یارک کے ریاستی قوانین کے تحت ٹیکس، جھوٹ، فراڈ اور دیگر کئی مالی اور اخلاقی الزامات کے تحت تحقیقات اور مقدمات التواء میں پڑے ہیں۔نیو یارک کے مین ہٹن علاقے کے سرکاری ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس وینس جونیئر ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت سے سبکدوشی پر ٹرمپ کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات آگے بڑھانے اور مقدمات چلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے آپ کو بھی معافی دینے کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں جبکہ دیگر قانونی حلقوں کا استدلال ہے کہ صدر کسی بھی ملزم یا مجرم کو کوئی وجہ بتائے بغیر معافی (این آر او) دے سکتے ہیں لیکن اپنی ذات کیلئے مکمل معافی کا یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ٹرمپ کے حامی حلقے یہ تجویز بھی پیش کر رہے ہیں کہ سبکدوشی سے چند روز قبل صدر ٹرمپ مستعفی ہو کر نائب صدر مائیک پنس کو صدر کی جگہ دیکر مائیک پنس کے ہاتھوں یہ صدارتی معافی کا این آر او حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اس صدارتی معافی کا اطلاق وفاقی قوانین، تحقیقات الزامات اور مقدمات پر ہو گا۔ریاستی اور مقامی قوانین کے تحت کی جانے والی تحقیقات، الزامات، مقدمات اور خلاف ورزیوں پر اس معافی کا قطعاً اطلاق نہیں ہوگا اور سابق صدر کے ساتھ عام شہری جیسا سلوک کیا جائے گا۔اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے کئی حامیوں اور دوستوں کو بھی معافی کا این آر او دینے کا صدارتی اختیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انتخابی شکست تسلیم کرنے سے انکار اور منتخب صدر جوزف بائیڈن کے انتخاب کو چیلنج کرنے اور اپنے حامیوں کی طاقت کے اظہار اور ٹوئیٹر جاری کرنے کے دبائو میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ فی الوقت وہ این آر او جاری کرنے کی جانب دھیان نہیں دے رہے ہیں لیکن جلد ہی انہیں خود اپنے لئے این آر او حاصل کرنے اور اپنے متعلقہ حامیوں اور دوستوں کو صدارتی معافی کے اجراء کی جانب توجہ دینا لازمی ہے۔ریاست نیو یارک اور بعض دیگر ریاستوں کے قوانین کےتحت التواء میں پڑے الزامات، تحقیقات اور مقدمات سے چھٹکارا حاصل کرنا صدر ٹرمپ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ انتخابی شکست سے انکار اور صدارت کے مزید چار سال کےحصول کی ٹرمپ خواہش کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔