بچوں کا جلد سے جلد کتاب سے تعارف کروانا کیوں ضروری ہے؟
بچپن کے دنوں میں میرے کچھ ایسے بھی دوست تھے جو رات کو والدین سے چھپ کر بستر میں کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، حالانکہ ان کتابوں کا مواد بھی ذرا بھی غیر مناسب نہیں تھا بلکہ یہ کتابیں اسکول کی لائبریری سے حاصل کی جاتیں تھیں جن کے موضوعات مرکزی دھارے کے ادب سے متعلق ہوتے۔ آج میں سوچتا ہوں کہ آخر والدین کیونکر بچوں کو مطالعے جیسے اچھے کام سے روکا کرتے تھے۔
کورونا وائرس کی چھٹیوں میں جب زیادہ تر بچوں کو معمول کی مصروفیت سے وقفہ مل جاتا ہے اور اس دوران انہیں مطالعے کے لیے کافی فارغ وقت مل سکتا ہے، اس عادت کو پیدا کرنے کا یہی اچھا وقت ثابت ہوسکتا ہے۔
کئی گھرانوں میں مخصوص سماجی سوچ موجود ہوتی ہے جس کے باعث وہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم تو دلوانا چاہتے ہیں، اور بعدازاں وہ افراد بڑی خوشی کے ساتھ اپنے بچے کی اسکول میں شاندار کارکردگی کا تذکرہ بھی کرتے دکھائی دیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہیں گے کہ بچے کے ذہن اور تجسس کا دائرہ محدود ہی رہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بچے اسکول میں تو بہت ہی شاندار نتائج حاصل کرتے ہیں لیکن کسی قسم کے مباحثے میں تعمیری حیثیت میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتے؟ ان میں سے کئی بچے اپنے اساتذہ، والدین، گھروالوں اور دوستوں کے آگے بولنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچے کو ہر قسم کا ادب پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمیں ان کے مطالعے کے دائرے پر اپنا ضابطہ قائم رکھنا پسند ہے کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ایسی ویسی چیز نہ پڑھ لیں کہ جس سے آگے چل کر وہ سماجی رکاوٹوں کو عبور کرنے لگیں اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں۔
مطالعے کا اپنا ہی لطف ہے اور یہ ذہنی صحت کے لیے اسی طرح اہم ہے جس طرح جسم کے لیے خوراک اور غذائیت۔ ہماری زندگی میں شاید ہی ایسی کوئی چیز ہو جو بستر میں ایک اچھی کتاب کے مطالعے سے ملنے والے طمانیت کے احساس کا متبادل ہوسکے۔ ویسے آج کل لوگوں کی ایک بڑی تعداد ای-بکس کا مطالعہ تو کرتی ہے لیکن آج بھی ہمیں ‘حقیقی’ کتابوں کی اہمیت ہر جگہ واضح طور پر نظر آتی ہے۔
تحریرنگار؛عابد عمر جنرل نالج بلوچستان