کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔لیکن یہ کشمکش صرف لفظوں کی جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پردہ اور بہت کچھ چل رہا ہے۔رواں ماہ کے اوائل میں جب امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اٹلی سمیت یورپ کے بیشتر ملکوں سے آنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر رہا ہے تو چین نے کہا تھا کہ وہ طبی عملہ، آلات ار امدادی سامان اٹلی روانہ کر رہا ہے جو کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔
اس کے علاوہ چین نے ایران اور سربیا کو بھی ایسے نازک موقع پر امداد فراہم کی جب چین خود اس وبا سے نکلنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ان واقعات کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اطلاعات کے دور کی یہ وہ جنگ ہے جو پس پردہ لڑی جا رہی ہے۔چین چاہتا ہے کہ اس بحران سے وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرے۔ یقینی طور پر یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں امریکہ اس وقت تک بری طرح ہار رہا ہے۔ امریکی فضائیہ کی ایک موبائل میڈیکل فسیلیٹی کو اٹلی روانہ کرنے کے تاخیر سے لیے گئے فیصلے سے اب کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔یقیناً یہ دنیا کے تمام ملکوں کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے کڑے امتحان کا دور ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قائدانہ صلاحیت بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ دور کی سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ وہ اس نازک وقت میں کیا فیصلے کرتی ہے۔کون سی قیادت کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتی ہے اور ملکی وسائل کتنے مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرتی ہے۔یہ وبا ایک ایسے وقت میں پھوٹی ہے جب چین اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سرد مہری کا شکار تھے۔ایک جزوی سے تجارتی معاہدے نے بمشکل دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی کھینچا تانی پر پردہ ڈالا تھا۔ اس وقت دونوں عالمی طاقتیں ایشیائی بحرالکاہل میں ممکنہ جنگ کی پیش بندی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلح کر رہی ہیں۔چین کم سے کم علاقائی سطح پر تو خطے کا ایک فوجی سپر طاقت بن گیا ہے مگر چین کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو تسلیم کروائے، جس کا اس کے خیال میں وہ بین الاقوامی سطح پر حقدار ہے۔کورونا وائرس کی عالمی وبا سے چین اور امریکہ کے تعلقات اور زیادہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔اس کشیدگی سے اس بحران کے حل اور اس سے ابھر کر سامنے آنے والی دنیا پر اثر پڑے گا۔ وائرس پر جب قابو پا لیا جائے گا تو چین کی معیشت کا دوبارہ اٹھنا دنیا کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے میں اہم عنصر ثابت ہو گا۔لیکن فی الحال چین کی طبی امداد اس وائرس سے لڑنے میں بہت اہم ہے۔چین کے مشاہدات اور تجربات سے دوسرے ملکوں کو فائدہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ چین دنیا میں ادوایات بننے والا بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈسپوزیبل اشیا مثلاً دستانے، جراثیم سے محفوظ رکھنے والے سوٹ، اور وہ تمام اشیا جو کورونا سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں کو بڑے پیمانے پر بنا رہا ہے۔
چین کئی اعتبار سے طبی ساز و سامان بنانے کی دنیا کی سب سے بڑی ورکشاپ ہے اور اس کے پاس ضرورت پڑنے پر اس صلاحیت میں اضافہ کرنے کی استطاعت بھی موجود ہے، جو کہ بہت کم ملکوں کو حاصل ہے۔
چین اس لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے خود ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے ہیں۔
ابتدا میں تو ٹرمپ انتظامیہ اس خطرے کی سنگینی کا اعتراف کرنے میں ناکام رہی اور اس کو ’امریکہ فرسٹ‘ اور امریکی نظام کی فرضی برتری کو ثابت کرنے کے ایک اور موقعے کے طور پر دیکھتی رہی۔
لیکن یہاں سوال عالمی سطح پر قیادت فراہم کرنے کا تھا۔
جیسا کہ ایشیائی امور کے دو ماہرین، سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں نائب وزیر خارجہ کرٹ ایم کیمبل اور رش دوشی، نے حال ہی میں امریکی جریدے فارن افیئر میں اپنے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کہ گذشتہ سات دہائیوں میں امریکہ کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار صرف دولت اور فوجی قوت پر ہی منحصر نہیں تھا۔
ان کے مطابق یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرز حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز، انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط رد عمل کے لیے تیار رہنے اور متحرک ہو جانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا امریکہ کی عالمی برتری کے تینوں عناصر کا امتحان ہے۔
اب تک امریکہ اس امتحان پر پورا نہیں اتر سکا ہے۔ ایک طرف امریکہ کچھ نہیں کر پا رہا، تو دوسری طرف چین بڑی سرگرمی اور انتہائی مہارت سے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس وبائی بحران میں اپنے آپ کو عالمی لیڈر ثابت کرنے میں امریکی کی ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شاید یہ بات ہو کہ اس وقت چین کس طرح اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
کیمپبل اور دوشی اسے چین کی دیدہ دلیری قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ وبا چین ہی سے شروع ہوئی۔ بیجنگ نے ابتدائی طور ووہان میں پھیلنے والی وبا پر پردہ ڈالے رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد اس نے بڑے مؤثر انداز میں اپنے تمام وسائل مجتمع کر لیے۔
پریس کی آزادی کی تنظیم ’پین امریکہ‘ کی سربراہ سوزن نوسل نے اسی جریدے میں لکھا کہ ابتدائی حالتِ انکار اور وبا پر قابو پانے میں بدانتظامی کی وجہ سے داخلی عدم استحکام پیدا ہونے کے خوف سے بیجنگ نے بڑے جارحانہ انداز میں اندرونی اور بیرونی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی۔
اس مہم کا مقصد اس وبا کے عالمی سطح پر پھلاؤ میں اپنے قصور کو کم کر کے پیش کرنا اور اس کے خلاف سخت ترین اقدامات کو درست قرار دینا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مقصد مغرب اور خاص طور امریکہ کے ردعمل کے مقابلے میں اپنی کاوشوں کے موازنے کے طور پر پیش کرنا تھا۔
بہت سے مغربی مبصرین کی نظر میں چین زیادہ قوم پرستی اور آمریت کی طرف جا رہا ہے۔
انھیں ڈر ہے کہ یہ نتائج وبا کے عالمی اثرات اور اس کے بعد معاشی سست روی سے اور زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی عالمی حیثیت پر اس کا اور تباہ کُن اثر پڑ سکتا ہے۔
امریکہ کے اتحادی اسے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ پر شاید وہ سرِعام تنقید نہ کریں لیکن بہت سے چینی ٹیکنالوجی ہواوے کے بارے میں امریکی رویے، ایران اور کئی دوسرے علاقائی معاملات پر امریکی پالیسیوں سے اختلافات رکھتے ہیں۔
چین نے اس وبا کے خلاف جنگ میں دوسرے ملکوں سے اپنے روابط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل اپنے تعلقات کے دائرۂ کار کو وسعت دے رہا ہے۔ ایسے تعلقات جس میں وہ دوسرے ملکوں کے لیے ایک ناگزیر ملک بن جائے۔ اپنے ہمسایہ ملکوں جاپان اور جنوبی کوریا سے نئے روابط اور یورپی ملکوں کو طبی آلات اور ساز و سامان کی فراہمی کو اسی بیانیے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کیمپبل اور دوشی نے اپنے مضمون میں اس صورتحال کا موازنہ برطانیہ کے زوال سے کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1956 میں نہر سوئز کے ناکام آپریشن نے برطانیہ کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا تھا اور اس کے ایک عالمی طاقت ہونے کے طویل دور کو ختم کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر اس وقت امریکہ کورونا وائرس کے امتحان پر پورا نہیں اترتا تو اس کے لیے اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو نہر سوئز کے ناکام آپریشن کے بعد برطانیہ کے لیے نکلا تھا
تحریرنگار عابد عمر جنرل نالج بلوچستان