خط نستعلیق
نستعلیق اسلامی خطاطی کا ایک انداز ہے، جو عموماً اُردو زبان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایران میں چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں پروان چڑھا۔ اس خطاطی انداز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بانی ایران کے مشہور خطاط میرعلی تبریزی تھے۔ یہ خط نسخ کے علاوہ، بعض اوقات عربی متن لکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نستعلیق خوش نویسی کا زیادہ تر استعمال ایران، پاکستان، افغانستان اور بھارت میں کیا جاتا ہے۔ نستعلیق کا ایک نسخہ فارسی، پشتو، کھوار اور اُردو لکھنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر استعمال ہوتا ہے۔اور اب شینا زبان کے لیے بھی تاریخ میں پہلی بار ولایتی نستعلیق سامنے آگیا ہے اور بلتی زبان بھی اسی میں لکھا جاسکتا ہے، جس کو غلام رسول ولایتی نے بنایا ہے۔اسلام کی ایران آمد کے بعد، ایرانیوں نے فارسی-عربی رسم الخط اپنایا۔ اِس طرح عربی خوش نویسی ایران اور ساتھ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں عروج پاگئی۔ عربی میں متعدد انداز خطاطی جیسے ثلث، رقعہ، دیوانی اور نسخ میں سے خط نسخ عام طور پر قرآن کی خطاطی میں بکثرت استعمال ہوتا تھا جبکہ قرآن کے صفحات پر اصل متن کے چہار جانب وضاحتی عبارت (تفسیر) لکھنے کا رواج تھا اور اس وضاحت کے انداز خطاطی کو قرآن کے متن سے الگ انداز میں لکھا جاتا تھا جس کو حاشیوں معلق ہونے کی وجہ سے عربی لفظ علق سے تعلیق کہتے تھے، خط تعلیق موجودہ دور میں یا تو کم و پیش معدوم ہو چکا ہے یا بہت ہی کم اختیار کیا جاتا ہے۔ میر علی تبریزی نے 14 ہویں صدی عیسوی میں ان دو رسم الخطوط نسخ اور تعلیق کی خصوصیات کو آپس میں یکجا کر کہ ایک نیا خط بنایا جسے نسخ-تعلیق (نسختعلیق ) کا نام دیا گیا جو بعد میں مختصر ہو کر نستعلیق بنا۔
تحریرنگار عابد عمر جنرل نالج بلوچستان