فرانس میں رمضان المبارک بمقابلہ پاکستان تحریر:ممتازملک.پیرس
پاکستان میں کچھ سال پہلے رمضان المبارک گزارنے کا موقع ملا ۔ وہاں کے لوگوں کے معمولات میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت کے پاس بازار کی دوڑیں، درزیوں کے چکر ، ہوٹلوں ،دکانوں سے سحریاں افطاریاں خریدنے کی لائنوں میں ہی گھنٹوں گزارنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ چاند رات زندگی میں ایک بار ہی غلطی سے گئی تھی تو کانوں کو ہاتھ لگا کر رات کے 3 بجے گھر پہنچ پائے ، وہ زندگی کی پہلی اور آخری چاند رات تھی ۔
اس قدر بھیڑ کہ مجھے محسوس ہوا ہوا میں سے آکسیجن ختم ہو چکی ہے ۔ راہ میں ایک ایک قدم اٹھانا دشوار تھا ۔ عورتوں کے بازاروں میں دنیا بھر کا لوفر لفنگا ، بھونڈی باز، جیب کترے اور جیب کتریاں ، اٹھائی گھیرے لوگوں کے ساتھ چپکے جا رہے تھے ۔ میں ایک جگہ رک گئی لیکن واپس جانے کا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا ۔ لوگوں کا ایک سونامی تھا ۔ ایک خریدار تھا تو سو اچکے اور جیب کترے، اور ٹھرکی ۔ اس روز آنکھوں دیکھے منظر نامے کے بعد ایک بات کا تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ میرے نزدیک چاند رات بازاروں کے چکر لگانے والوں سے زیادہ بیوقوف، اور بے شرم کوئی نہیں ہو سکتا ۔
آخر سال کے تین سو پینتیس دنوں میں ان لوگوں خصوصا عورتوں کو خریداری کیوں یاد نہیں آتی ؟ اگر بات سستے کی ہے تو سال بھر کی یہ ایسی واحد رات ہے کہ اس میں سب کچھ مفت مل رہا ہے کیا ؟ تیس روز تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنی طرف سے بیت پارسائی کمانے کے بعد یوں نامحرموں کے ساتھ چپک چپک کر دھکے کھانے کے بعد کسی خوشی اور جنت کی تلاش ہوتی ہے ۔ جبکہ ان لوگوں کی اکثریت فجر کی نماز کیا عید کی نماز سے بھی غافل ہو چکی ہوتی یے ۔ یہ ہی سوچ اور دیکھ کر دوبارہ گرمی کی چھٹیوں میں کتنے سال رمضان المبارک آنے کے باوجود ہم نے پاکستان میں رمضان المبارک گزارنے سے توبہ کر لی ۔
پاکستان کے اکثر دو نمبر یا برائے نام مسلمانوں کی زبان میں ہم ایک غیر مسلم ملک یا کافر ملک میں رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے تصورات کے مطابق ہر مرد و زن شراب کی بوتل ہاتھ میں لیئے نائٹ کلبوں میں پڑا ہوا ہے اور جس مرد کا جو دل چاہے وہ عورت اس کی جھولی میں پڑی ہوتی ہے ۔ یورپ کا طعنہ دینے والے یہ ہی لوگ ساری عمر اسی یورپ میں آنے کے لیئے ویزے کی لائنوں میں اور خواہشوں کے سراب میں گزار دیتے ہیں ۔ پھر بھی یورپ میں رہنے والے عزیزوں کو طعنہ دیتے ہیں مادر پر آذادی کا ۔ بنا اپنے ناک کے نیچے نظر دوڑائے ۔
ممتاز ملک کے دیگر کالم پڑھنے کیلئے کلک کریں
باقی یورپ کی طرح فرانس میں بھی الحمداللہ ہر چیز کا نظام الاوقات یعنی ٹائم ٹیبل ہے ۔ یہاں ہم چاند راتوں کے انتظار میں اپنی شرم حیا تار تار کروانے بازاروں کے دھکے نہیں کھاتے ۔ اگر کہیں چاند رات کا اہتمام کسی ہال میں کوئی تنظیم کر بھی دے تو یہ خالصتا خواتین کا پروگرام ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مرد کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اول تو دو تین ماہ پہلے ہی سینے خریدنے کا کام مکمل ہوتا ہے ۔ آرام سے قرآن پڑھا جاتا ہے ۔ روزے میں رابطے کم کر کے غیبت ، چغلی ، جھوٹ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رات بھر اپنے اپنے گھروں میں اور مساجد میں عبادت ہوتی ہے ۔ خواتین گھر میں اپنے ہاتھ سے سحر و افطار تیار کرتی ہیں۔
جبکہ ملازمت کرنے والی خواتین بدستور اپنے کاموں پر بھی جاتی ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا روزہ بھی رکھتی ہیں ۔ پھر بھی شوہروں کو سحر اور افطار میں ہوٹلوں پر 3 ،3 گھنٹے کھڑے ہونے کو نہیں بھیجتیں ۔ یہاں کے مرد اور خاص طور پر شادی شدہ مرد پاکستان کے مقابلے میں بیسیوں غموں سے آذاد ہیں ۔ وہ بھی ان خاص مواقع پر۔ جس کے لیئے انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان جو کام چھپ کر اپنے اور اللہ کے بیچ رکھ کر کرنے چاہیئیں وہ ہم نمائش گاہ میں لے آئے ہیں ۔ جیسے عبادات کرنا ، نماز، روزہ، زکوات ، کسی کی مدد کرنا ۔۔۔۔ اور جن کاموں کو اعلانیہ کرنا چاہیئے انہیں پردے میں چھپا دیا ہے ۔ ۔۔جیسے کسی کی تعریف کرنا ہمت بندھانا، سچ بولنا ، گواہی دینا ، معافی مانگنا ، برے کو برا کہنا ، حق کا ساتھ دینا ۔۔۔۔۔
پاکستان میں اسلام کے نام پر رمضان المبارک میں جتنا بڑا تماشا کیا جاتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں ایسا ہوتا ہو ۔ پاکستان میں مسلمانوں کو پھر سے اپنے تجدید ایمان کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے آپ کو پاکستان گئے بھی بہت عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس بار جائیں تو یہ سب باتیں سامنے رکھ کر ان کا جائزہ لیجیئے گا ۔ ۔۔