مد ینتہ النبی ؐکا مسافر تحریر:خالد پرویز…برمنگھم
رب کعبہ کے ہاں حاضری اور عمرہ کے فریضہ کی ادائیگی کے بعد اب مکہ المکرمہ سے مدینۃالمنورہ کے سفر پر رواں دواں تھے تاکہ شاہ کونین کی خدمت میں سلام عرض کیا جا سکے جب ہماری گاڑی اس شہر مقدس میں داخل ہورہی تھی تو رات ڈھل چکی تھی۔ اس کی جگمگاتی روشنیوں پر نظر پڑتے ہی دل کی دھڑکنوں اور زبان سے درود وسلام میں تیزی آگئی۔ مسجد نبوی کے روشن اور جگمگاتے میناروں سے نماز فجر کے لئے اذان ہورہی تھی۔ ہوٹل میں سامان رکھا اور عجزوانکساری، شوق واشتیاق اور بے تابی کے ساتھ مسجد کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ نماز کی ادائیگی کے تھوڑی دیر بعد روضہ اقدس کی جالیوں کے سامنے شاہ کونین کی خدمت اقدس میں کھڑا تھا۔ یقینی اور بے یقینی کی ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ مجھے یہ یقین کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ میں واقعی ان سے اتنے قریب ہوں۔ اور سعادت عظیم سے نوازا جارہا ہوں۔ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کہاں سے ہوں؟ یہ خیال ایکبار پھر ذہن میں گردش کرنے لگے۔ لیکن جلدہی یہ سب کچھ تشکر کے بہتے ہوئے آنسوئوں میں دھندلاگیا اور شاہ کونین کا ایک گنہگار امتی ان کی خدمت اقدس میں درودوسلام کا نذرانہ پیش کررہا تھا۔نمازیوں سے مسجد بھری ہونے کے باوجود یہ ان کا کرم ہی تو ہے کہ نماز عصر کے لئے ریاض الجنہ یعنی مسجد کے اس حصہ میںجگہ مل جاتی ہے جسکے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ میرے گھر اور میرےمنبر کے درمیان جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہے اور جو شخص جنت کے باغات میں سے کسی باغ میں نماز پڑھنے کا خواہش مند ہو تو اسے میری قبر اور میرے منبر کے درمیان نماز پڑھ لینی چاہئے۔

