نیند میں خلل سے یادداشت اور سوچنے کے عمل پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو 30 اور 40 کی دہائی میں نیند میں زیادہ خلل کا سامنا ہوتا ہے، ایک دہائی بعد ان کی یادداشت کے عمل کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق طبی جریدے امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی میں شائع ہوئی ہے۔
محققین نے لوگوں کی نیند کے دورانیے اور معیار کا مطالعہ کیا۔ تحقیق کے مطابق شرکا کی کلائی پر تین دن تک ایک مانٹیر باندھا گیا تھا جو ان کی اوسط نیند کو ریکارڈ کرتا رہا۔ شرکا نے اوسطاً چھ گھنٹے کی نیند لی۔
تحقیق کے مصنف اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پی ایچ ڈی یوی لینگ کا کہنا ہے کہ ہمارے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی عمر میں یادداشت اور واضح طور پر سوچنے کے عمل کے لیے نیند کے دورانیے کے بجائے معیار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اس تحقیق میں 526 افراد نے حصہ لیا جن کی اوسط عمر 40 سال تھی۔ ان پر تقریباً 11 سال تک تحقیق کی گئی۔
محققین نے ان کے ‘نیند کے دورانیے اور معیار’ پر تحقیق کی۔ شرکا نے سونے کے لیے بستر پر جانے اور جاگنے کے اوقات کو ایک ڈائری میں درج کیا۔
شرکا میں سے 239 افراد نے خراب نیند کو رپورٹ کیا۔ اس کے علاوہ شرکا نے یادداشت اور سوچنے کے عمل کے بھی مکمل ٹیسٹ کیے۔
دس سال بعد نیند کی زیادہ خرابی کی شکایت کرنے والے 175 میں 44 افراد کے سوچنے کا عمل متاثر ہوا۔ اس کے مقابلے میں 176 افراد میں سے 10 افراد کو نیند میں خلل کی کم شکایت تھی۔
تحقیق کے مصنف یوی لینگ کا کہنا ہے کہ ‘زندگی کے مختلف مراحل میں نیند میں خلل اور یادداشت کے درمیان جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔’