‘ڈیجا وو’ کو عموماً دو طرح کی صورتوں میں دیکھا جاتا ہے۔ پہلی صورت میں، یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی موقع یا حالات وہی ہو رہے ہیں جو پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ دوسری صورت میں، یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ایک واقعہ یا حالت پہلے بھی تجربہ کیا ہے، حالانکہ وہ واقعہ یا حالت پہلے کبھی ہوا ہی نہیں۔
اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، جیسے:
1. **یاداشت:** کبھی کبھار ہمیں کوئی واقعہ یا حالت اتنی طرح محسوس ہوتی ہے جیسے ہم نے پہلے بھی اسے تجربہ کیا ہو۔ یہ واقعہ یا حالت ہمیں پرانی یادوں یا تجربات کو یاد دلاتا ہے، جو کہ ہمیں اس واقعہ یا حالت سے وابستہ ہوتے ہیں۔
2. **دلچسپی کی باتیں:** کبھی کبھار ہمیں ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جو ہمیں پہلے سنائی دیتی ہوں، اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ بات پہلے بھی ہو چکی ہے۔ یہ معمولاً وہ مواقع ہوتے ہیں جب ہمیں ان باتوں کی طرح کی مواد اگر پہلے بھی سنائی گئی ہو، مثلاً کسی مذاقیہ ویڈیو یا کتاب میں، تو ہماری دلچسپی اسی لیے بڑھ جاتی ہے۔
3. **اعتیادی عمل:** بعض اوقات ہمارے عادات اور روزمرہ کی کاروائیوں کے بارے میں بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پہلے بھی ایسا ہی کر چکے ہیں، جیسے صبح کی چائے پینا، یا کسی خاص وقت پر ورزش کرنا۔
یہ ‘ڈیجا وو’ کیفیت مختلف لوگوں کے لیے مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر زندگی کے تجربات، یادیں، اور اعتیادات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
‘ڈیجا وو’ کی یہ معمول کیفیت جو عموماً لوگ محسوس کرتے ہیں، حیرت انگیز اور دلچسپ ہوتی ہے۔ اسے فرانسیسی فلسفی اور پیراسائیکولوجسٹ ایمیل بوراک نے ‘پہلے دیکھا ہوا’ کا نام دیا۔ اسے سائنسی طور پر تحقیق کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ بہت ہی تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے اور بھی عوامل اس کی دلچسپی کو بڑھاتے ہیں۔
یہ معمولاً زندگی کے مختلف مواقع پر آتا ہے، اور اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات، یہ معمولی مواقع پر آتا ہے جیسے کہ کسی جگہ، شخص یا واقعہ کو دیکھتے ہوئے۔ دوسری مرتبہ، اسے غیر معمولی یا مشکل حالات میں محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے کہ ایک خواب میں، یا دیجا وو کے بارے میں بات کرتے ہوئے۔
اس کی وجوہات اور تاثرات کو بصورت سائنسی طور پر سمجھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن بوراک کی تھیوریاں اور دیگر تحقیقات اس پیچیدہ معمول پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان مطالعات کے ذریعے، ہم دماغی عملوں، یاداشت کی طریقہ کار، اور نفسیاتی پروسیسز کے بارے میں بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
دیجا وو کیفیت ایک دلچسپ، لیکن مشکل، نفسیاتی عمل ہے جس پر اب تک بہت سی تحقیقات کی گئی ہیں، اور یہ کوشش جاری ہے کہ اس کی اصل وجوہات اور تاثرات کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔
اس حالت میں، جب یاداشت کا دماغی حصہ، جسے ہولوگرام کہا جاتا ہے، ایک طرف مخصوص یاداشت کی طرف جھکا ہوتا ہے، اور دوسری طرف ہمیں وہ یاداشت محسوس ہوتی ہے جیسے کہ ہم نے اسے پہلے بھی دیکھا ہو۔ اس حالت میں، ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں یہ واقعہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہوا ہے، حالانکہ واقعیت میں ہم نے ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔
اس واقعہ کو غلطی کے بجائے ‘الجھن’ یا ‘کنفیوژن’ کہا جاتا ہے۔ اس معاملے میں، دماغ کی یاداشتیں مختلف واقعات کو ملا کر ایک تصویری طور پر ظاہر کرتی ہیں، جو بعض اوقات غلط ہو سکتی ہے۔
ایک طریقہ جس سے اس واقعہ کو سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی یاداشت کی عملیت کو سمجھا جائے۔ جب آپ کی یاداشت ایک وقتی محیط میں جمع ہوتی ہے، وہ مختلف مواقعات، خوابوں، یا دیگر تجربات سے جڑی ہوتی ہے۔ اس وسیع محیط کی بنا پر، آپ کی یاداشت میں موجود تصاویر اور معلومات کو ایک دوسرے سے ملا کر ایک مخصوص واقعہ بناتی ہے، جو کبھی کبھار اصل واقعہ سے مختلف ہوتا ہے۔ اس عمل کو ‘ہولوگرافک یاداشت’ کہا جاتا ہے۔
یہ مثال دیکھنے کے بعد، آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے ایک ہولوگرافک یاداشت بنا لی ہے، جو آپ کو ایک مخصوص واقعہ کی یاد دلاتی ہے، حالانکہ اصل واقعہ ایسا نہیں تھا۔ اس طرح کی عملیت کے باعث، یہ الجھن یا کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، جو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ایسا واقعہ پہلے بھی دیکھا ہوا ہے۔
‘ڈیوائیڈڈ اٹینشن’ کی تھیوری کے مطابق، جب ہم کئی مختلف چیزوں کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہوتے ہیں، ہماری توجہ ایک مخصوص چیز پر مرکوز ہوتی ہے جبکہ باقی چیزوں پر ہم اتنی توجہ نہیں دے پاتے۔ یہ معمولاً ایک نفسیاتی عمل ہے جو ہمیں محسوس ہوتا ہے جب ہم کئی مختلف محیطوں میں ہوتے ہیں، جیسے ریستوران یا کسی عوامی جگہ۔
مثال کے طور پر، اگر آپ ایک ریستوران میں ہوں اور آپ کے سامنے مختلف چیزیں موجود ہوں، جیسے کہ چمچے، کانٹے، پلیٹیں، اور ٹیبل کلاتھ، تو آپ کی توجہ ممکن ہے کہ کسی ایک چیز پر مرکوز ہوگی، جیسے کہ کانٹے۔ اس وقت آپ باقی چیزوں کو تو دیکھ رہے ہوں گے لیکن آپ ان پر کافی توجہ نہیں دے پاتے۔ پھر، جب آپ کانٹے سے توجہ ہٹا کر باقی چیزوں کو دیکھیں گے، آپ کو ایک دم سے محسوس ہوگا کہ آپ نے اس وقت کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہوگا یا کسی دوسرے موقع پر ایسی وضعیت تجربہ کی ہوگی۔
اس وجہ سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے بھی اس طرح کی صورتحال کو محسوس کیا ہے، جبکہ واقعیت میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ تھیوری نفسیاتی عملوں کے پیچیدہ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، اور ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری توجہ کس طرح مختلف امور پر مرکوز ہوتی ہے اور کس طرح ہم ایک وقت میں مختلف چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایک مخصوص چیز پر مرکوز ہوتے ہیں۔