کیا ہو رہا ھے؟ لیفٹیننٹ :کچھ نہیں. پھر بھی؟ لیفٹیننٹ : دشمن کی گولی کا انتظار کر رہا ہوں
کیا ہو رہا ھے
لیفٹیننٹ :کچھ نہیں
پھر بھی
لیفٹیننٹ : دشمن کی گولی کا انتظار کر رہا ہوں
نہیں یار کیا گپیں مار رہے ہو
لیفٹیننٹ: گپ نہیں یہاں صرف شہادت کے لئے ہی تو موجود ہوں۔
جانتے ہیں یہ پاکستان کے ایک بہادر بیٹے کی دوست کے ساتھ آخری گفتگو تھی اور اس کے اگلے دن ہی اس جانباز نے جو کہا وہ کر کے دکھا دیا۔
ذرا سوچئے بائیس سال کی عمر میں آج کے نوجوان عیاشی ،آوارا گردی، فلرٹنگ کے نت نئے طریقے سیکھنا شروع کرتے ہیں۔
اس عمر کے نوجوانوں پر بالی وڈ حسیناؤں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ھے۔ بائیک سے سائیلنسر نکال کر ریسیں لگانا، راہ چلتی خواتین پر آوازیں کسنا، دن رات لڑکیوں سے پیکج لگا کر باتیں کرنا ہم نوجوانوں کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔
لیکن شاید کوئی تو ھے جو اپنے اہل و عیال ، اپنی جوانی، ماں باپ اور جوان بہنوں وہ بھی تین تین ۔۔۔۔۔ کی پرواہ نہیں کرتا۔
ذرا سوچئے اس ماں کا کیا حال ہوگا جسکا اکلوتا بیٹا جسے اس نے جی بھر کر دیکھا بھی نہیں اور پتہ چلے کہ اسکا بیٹا اب دنیا میں نہیں رہا وہ بہنیں کس حال میں ہونگی جو اپنے بھائی کے سر پر سہراسجانے کے خواب دیکھ رہی تھیں لیکن وہ سبز ہلالی میں لپٹ کر گھر آیا اسکا باپ جو سوچ رہا تھا کہ میرا بہادر اور لائق بیٹا میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا لیکن آج اس باپ کو جوان بیٹے کا تابوت اٹھانا پڑا استغفراللہ
ارے ہاں یاد آیا ایویں میں ان لوگوں کو پریشان کر رہا ہوں جن کے ضمیر کی قیمت ایک پلیٹ بریانی یا قیمےوالا نان، ایک معمولی نوکری ، گلی یا نالی پکی کرنے سے زیادہ نہیں
چھوڑو یار آپ تو بزی ہوگے نا ۔۔۔۔۔۔۔لگے رہو اپنے لیڈران کی لوٹ مار، کرپشن ،حرامخوری ، منی لانڈرنگ ، جھوٹے وعدوں کا دفاع کرنے
خوامخواہ پریشان نہ ہوں وہ تو اسکا کام تھا اسکو اسکی تنخواہ بھی تو ملتی تھی نا
ایک چوکیدار کا یہی تو کام ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بات یاد رکھنا آزادی کو قائم رکھنا دنیا کا سب سے مشکل اور ناممکن ترین کام ھے اور آزادی ایسے ہی قائم نہیں رہتی
ہر روز کم ازکم ایک نوجوان بیٹے کا خون مانگتی ھے