اے وادی کشمیر حسن اقبال
کشمیر کو ایرانِ صغیر بھی کہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایران کے شہر قم میں یکجہتی کشمیر کانفرنس منعقد کی گئی۔ قم ایک منفرد حثییت کا حامل شہر ہے ۔ اس شہر قم کو شہر علم و اجتہادبھی کہا جاتا ہے ۔ اسلامی انقلاب کی چنگاری بھی اسی شہر سے پھوٹی تھی ۔ ایران میں اکثر اسی شہر سے دنیا بھر کے مظلومین کیلئے صدا بلند ہوتی رہتی ہے ۔ ویسے تو دنیا بھر میں کانفرنسیں ہوتی ہے لیکن اس شہر میں کسی موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا ہونا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ یکجہتی کشمیر کانفرنس کا اہتمام سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم نے کیا تھا۔ حسبِ توقع اس میں عام لوگوں کے بجائے دانشور ، علماء ، زعما اور نظریہ پرداز شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا ۔ کانفرنس میں حاضرین کی سہولت کے پیشِ نظر تین زبانوں فارسی، عربی اور آذری میں گفتگو ہوئی۔ آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر ، پاکستان ، عراق ، یمن ، بحرین ، شام ، اور آذربائیجان کی جیّد شخصیات نے گفتگو کی۔ گفتگو کرنے والوں کے علاوہ بھی شرکا میں پاکستان،آزادکشمیر،ایران، قزاقستان ،ترکمانستان و دیگر ممالک کے دانشور موجود تھے۔
میں اوّل ِوقت میں پہنچنے والوں میں شامل تھا ۔ میری ساتھ والی نشستوں پر کچھ جانے پہچانے چہرے بھی موجود تھے۔ ہر طرف اپنائیت کا ماحول تھا۔ کانفرنس کی انتظامیہ بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی تھی ۔ سب کے چہروں پر خلوص و عزم کے آثار نمودار تھے ۔ مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا جارہا تھا ۔ سب کے دلوں میں کشمیریوں کیلئے نیک تمنّائیں اور زبانوں پر دعائیں تھی۔ یوں لگتا تھا کہ سب اس توفیق پر کہ خدا نے ان کو عطا کی تھی شکر ادا کر رہے ہوں ۔ سب اپنی کرسیوں پر تشریف فرما تھے کہ اسی اثنا میں محترم تنویر مطہری نے اپنی خوبصورت آواز سے تلاوت ِ قرآن مجید شروع کی۔تلاوت کے دوران مکمل سکوت اور سنّاٹا چھایا رہا۔ اس کے بعد سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کے ترجمان محترم نذر حافی نے فارسی زبان میں معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور کانفرنس کا افتتا حیہ بیان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی مظلومیت کی مسلسل ترجمانی اور ان کی حمایت کیلئے بلاوقفہ آواز بلند کرتے رہنا سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کامشن ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مظلومین کی حمایت اورمدد خدا کا حکم بھی ہے اور ہر مہذّب و متمدن انسان کی آرزو بھی۔ انہوں نے انتہائی فکر انگیز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی راہ میں کی جانی والی علمی، فکری، عملی، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد میں صرف ہونے والے لمحات بھی عظیم انسانوں کی طرح لازوال اور پائیدار ہوتے ہیں۔ کانفرنس کا ماحول ہر قسم کے جذباتی پن سے ہٹ کر خالصتاًسنجیدہ نوعیت کا تھا۔ شرکا انتہائی توجہ سے نکات کو سن اور لکھ رہے تھے۔ انہوں نے شرکائے اجلاس کو یہ نوید بھی سنائی کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق آگاہی اور شعور کے فروغ کیلئے ہم نے سارے جہانِ اسلام کو کشمیریوں کی مظلومیت سے آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بین الاقوامی کانفرنسز کے علاوہ میڈیا ایکٹوسٹ حضرات آن لائن سیشنز کے ذریعے جہانِ اسلام کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آگاہ، فعال اور متحرک کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ افتتاحیہ بیان کرنے کے بعد انہوں نے معزز مہمانوں کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کی نظامت حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب کے حوالے کر دی دی۔ یاد رہے کہ کانفرنس میں موجود اکثر دانشوروں کا تعلق عرب دنیا سے تھا۔ ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی شُستہ و رُفتہ عربی میں مسئلہ کشمیر کے پسِ منظر، قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نظریا ت اور ہندوستان کی آر ایس ایس حکومت کے متعصبانہ رویّے کو کھل کر بیان کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کی مظلومیت کو دنیا میں بلند کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو میں مندرجہ زیل نکات پر شرکا کو کام کرنے کی دعوت دی۔ سب سے پہلے تو انہوں نے اس حوالے سے اپنا موقف بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل میں انڈیا نے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کا جو وعدہ کیا تھا اُسے پورا کرے۔ موقف کے بعد انہوں نے مندرجہ زیل نکات بیان کئے:
۱۔ اہلیانِ کشمیر کی آواز بننے کا فیصلہ کریں اور اس فورم میں شمولیت اختیار کر کے آواز اٹھائیں
۲۔ بین الاقوامی سطح پرسب بولیں تاکہ یہ مسئلہ ایک مقامی مسئلے کے بجائے ایک بین الاقوامی مسئلے کی شکل اختیار کرے۔
۳۔ قلمی دنیا میں نگارشات لکھیں اور اس مسئلے پر کانفرنسز کرائیں
۴۔اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اعلیٰ حکام، سیاستدانوں اور حکمرانوں سے اس بارے میں استفسار کریں
۵۔ آر ایس ایس جیسی جابر اور ظالم پارٹی اور اس کی حکومت کا اصلی چہرہ بے نقاب کریں
۶۔ اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ مسلمانوں پر آر ایس ایس کے مظالم سامنے لائیں
ان کے بعد سب مہمانوں نے باری باری نہ صرف یہ کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا بلکہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اہم تجاویز بھی سامنے لائیں ۔ اس کانفرنس کے دوگھنٹے کے دورانیے میں مسئلہ کشمیر کے وژن اور حکمتِ عملی کے حوالے سے انتہائی جاندار اور پُرمغز گفتگو ہوئی۔ ہر بولنے والے کے پاس چونکہ صرف چند منٹ تھے چنانچہ لمبی تقریروں کے بجائے انتہائی نپے تُلے الفاظ اور جامع اصطلاحات میں گفتگو کی گئی ۔ بظاہر یہ کانفرنس دوگھنٹے میں اختتام پذیر ہوگئی تاہم اپنے شرکاء کے دل و دماغ پر گہرے نقوش مرتب کر گئی۔ اس کانفرنس کے بعد بے ساختہ کشمیر کی مظلومیت کے بارے میں چند اشعارمیری زبان پر آئے جوکہ اس وقت نذرِ قارئین کر رہا ہوں۔
گُلشن کو گورستاں بنایا کس نے
شاخِ گُل سے بُلبل اُڑایا کس نے
قوسِ قزح پہ دھواں ہے کیوں
صبحِ نو کو ظلمتِ شب بنایا کس نے
تیری تاریخ خون سے لکھی جا رہی ہے
اے وادی کشمیر، انسانیت شرما رہی ہے