یومِ یکجہتی کشمیر ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ نذر حافی
یومِ یکجہتی کشمیر ہم سب مناتے ہیں۔ہر سال ۵ فروری کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی زمانے میں دن منانے کو بدعت و خرافات کہاجاتا تھا، دن منانے پر لڑائی اور پٹائی بھی ہوا کرتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ خیر اب تو دن بدن، بلکہ دن رات، دن منانے کا رواج چل پڑا ہے۔یہ رواج پہلے نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ کشمیر ۱۵۸۳ میں غلام ہوا تھا لیکن اس وقت بھی کسی نے اظہارِ یکجہتی کیلئے دن نہیں منایا تھا۔یعنی یہ بدعت ابھی نئی نئی ہی ایجاد ہوئی ہے ۔ اگر اُس زمانے میں یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا تو مذہبی شدت پسندوں کی بڑی بدنامی ہوتی۔ چونکہ پہلی مرتبہ کشمیر کو اکبر بادشاہ کی غلامی میں مذہبی شدت پسندوں نے ہی دیا تھا۔ اس کے بعد کشمیر نے آزادی کا سورج آج تک نہیں دیکھا۔ غلامی در غلامی کے بعد ۱۶مارچ ۱۸۴۶ کو انگریزوں نے معائدہ ِ امرتسر کے تحت یہ ریاست مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دی۔ یوں وقت گزرتا رہا اور۳۰ – ۱۹۳۱ کا سال آن پہنچا۔اس دوران کشمیر میں توہینِ قرآن کے دو واقعات رونما ہوئے۔یوں عوام میں اضطراب کی موج ایجاد ہوئی۔ ۲۵ جون ۱۹۳۱ کو سری نگر میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا۔یہ احتجاج مہاراجہ ہری سنگھ کے ٹیکسوں اور توہینِ قرآن کے واقعات کے خلاف تھا۔ اس جلسے میں عبدالقدیرنامی ، کوئی غیر ریاستی شخص اچانک اسٹیج پر نمودار ہوا۔اس نے ایک پُر جوش تقریر کی۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انگریز میجر مسٹر ایبٹ کا خانساماں تھا۔ البتہ اُس انگریز میجر کی تعیناتی تو پشاور میں تھی۔ تاہم ۲۵ جون کو میجر اور اس کا خانساماں سری نگر میں موجود تھے۔ ان کی سری نگر میں موجودگی پر سوالات تو بنتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
عبدالقدیر نے عوام میں پائی جانے والی اضطرابی موج کو اشتعال کی طرف جہت دی۔ اُس نے مہاراجہ ہری سنگھ کے راج محل کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ”مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے یادداشتوں اور گذارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ توہینِ قرآن کا مسئلہ حل ہو گا۔ تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ اور ظلم کاے خلاف لڑو۔ عبدالقدیر نے راج محل کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو“۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
لیں جی پھر وہی ہوا جو ایسی تقریروں کے بعد ہوا کرتا ہے۔ پُر امن احتجاج مشتعل ہجوم میں بدل گیا۔ ایک طرف نہتّا مشتعل ہجوم اور دوسری طرف مسلح ریاستی اہلکار، سنگینوں کا سینوں سےٹکراو ، پتھراو اور جلاو گھیراو شروع ہو گیا ۔ اس ایک ہی تقریر سے وہ غیر ریاستی اور نامعلوم باشندہ کشمیری عوام کا ہیرو بن گیا اور آج بھی ہیرو ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
لوگوںمیں اسے معروف کرنے کیلئے پہلے تو اُسے سنٹرل جیل سے سیشن جج پنڈت کشن لال کچلو کی عدالت میں پا پیادہ لایا جاتا رہا۔ پھر سنٹرل جیل میں ہی اس پر مقدمہ چلایا گیا۔۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کو عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت ہونی تھی۔ سماعت سے پہلے ہی ریاست میں اس خبر کے ساتھ ایک نئی موج ایجاد کی گئی کہ عبدالقدیر کو پھانسی دی جائے گی۔۔۔وغیرہ وغیرہ
لہذا لوگ جوق در جوق سنٹرل جیل کی طرف بڑھنے لگے۔مقدمے کی سماعت کے دوران لوگوں کے جمِ غفیر نے سنٹرل جیل کو گھیر رکھا تھا۔ آخرعدالت بھی تو ریاستی مقدسات میں سے ہے۔ چنانچہ عوام کو منتشر کرنے کا حکم دیا گیا۔ فائرنگ اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی نمازِ ظہر کا وقت بھی ہوگیا۔ کسی نے دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کر دی۔ اُسے گولی لگی تو کوئی دوسرا شخص موذن کا فریضہ انجام دینے کیلئے آگےبڑھا۔۔۔ یوں اذان بھی اور گولیاں بھی جاری رہیں۔۔۔ بائیس مسلمان اس اذان کی تکمیل میں شہید ہوئے۔ ان شہدا کے بارے میں معروف ہے کہ سب کو لگنے والی گولیوں کے زخم ان کے سینوں پر تھے، کسی کو ایک گولی بھی پُشت پر نہیں لگی تھی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
ان شہادتوں نے سارے ہندوستان اور کشمیر میں احتجاج کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔اُس دن سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے پہلی کشمیر کمیٹی بھی اُسی زمانے میں بنائی گئی ۔ بعد ازاں پاکستان بن گیا تو پچاس کی دہائی میں ازسرِ نو کشمیر کمیٹی بنائی گئی۔اس مرتبہ جو لوگ زیادہ فعال تھے اُن میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی، چودھری غلام عباس ،نواب زادہ نصراللہ خان اور مولانا مودودی کے نام آتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر فروری ۱۹۷۵ میں پہلی مرتبہ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی خاطرمُلکی سطح پر شٹرڈاون کیا گیا ۔ اس مرتبہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ماہِ فروری کے آخری جمعۃ المبارک کو ایک پُر امن ہڑتال کی کال دی ۔اس کال کا بھی ایک پسِ منظر ہے جس میں شیخ عبداللہ کا بھی ذکر ہے وغیرہ وغیرہ۔بہر حال قیامِ پاکستان کے بعد اٹھائیس فروری ۱۹۷۵ کو کشمیر کیلئے پاکستان میں ہڑتال کرنے کا آغاز ہوا۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔مسٹر بھٹو اقتدار کی راہداریوں سے ہوتے ہوئے پھانسی گھاٹ تک جاپہنچے۔ بعد ازاں اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آ گئیں ۔ بے نظیر کےدورِ اقتدار میں ۱۹۸۸ میں سارک اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کشمیری انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں اور اب کشمیر میں حقِ خود ارادیت والی کوئی بات باقی نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سارک کانفرنس اور مشترکہ پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر کوئی بات ہی نہیں کی اور یوں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایک شدید اضطرابی موج محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ایجاد ہو گئی۔ سارک ایجنڈے سے مسئلہ کشمیر کو خارج پاکر یہ بات مشہور کر دی گئی کہ بے نظیر حکومت نے کشمیر پر سودے بازی کر لی ہے۔
جلدہی” کشمیر پر سودے بازی نامنظور “کا نعرہ عوامی بیانیے میں بدل گیا۔اُن دنوں اسلامی جمہوری اتحاد میں جماعتِ اسلامی بھی شامل تھی۔ اس اتحاد کے سربراہ میاں نواز شریف تھے جوکہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بھی تھے۔ جماعت اسلامی اور اپوزیشن نے مل کر مسئلہ کشمیر پر ابھری ہوئی موج کو بے نظیر حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانی۔ جماعتِ اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف سے مل کر پانچ فروری ۱۹۹۰ کو یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کر دیا۔یہ اعلان بے نظیر حکومت کیلئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اس موج سے ٹکرانے کے بجائے اس موج کی بروقت مدیریت کی اور پانچ فروری کو سرکاری سطح پر یومِ یکجہتی کشمیر منانے کی تائید کر کے اس موج کا رُخ اپنی طرف سے ہٹا کر ایک مرتبہ پھر بھارت کی طرف موڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔
اب ہر سال ۵ فروری کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دِن کشمیریوں سے انسانی ہمدردی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات انسانی ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی جاتی ہے، مختلف سیاست دان، لیڈراور شعرا آنسو بھی بہاتے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں پر سوار ہو کر اہم شخصیات تقاریر کرنے کیلئے مختلف پروگراموں میں تشریف لاتی ہیں، شعلہ بیان خطیب تقریریں کرتے ہیں، دل گرما دینے والے ترانے پڑھے جاتے ہیں، اوراخبارات میں تصاویر و سُرخیاں چھپتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایسا ہی کچھ آج کل یمن کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ جہاں ہر چند منٹوں میں زمین پر ایک بچہ بھوک سے مر رہا ہے، اور آسمان سے ایک بمب گر رہا ہے۔ یونیسیف کے مطابق اب تک دس ہزار بچے بمباری کر کےمارے جا چکے ہیں اور پچاسی ہزار بچے بھوک سے مر گئے ہیں ۔باقی مرنے والوں ، زخمیوں، مہاجرین، یتیموں اور بیواوں کی تعداد تو چھوڑیے۔بس یہ یاد رکھئے کہ یمنیوں پر حملہ آور فورس چونکہ ہمارے دوست ممالک پر مشتمل ہے لہذا اس ظُلم پر خاموش رہنا ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ہم تو خاموش ہی رہیں گے چونکہ مسئلہ کشمیر کا ہو یا یمن کا اور یا پھر فلسطین کا ہم لوگ وغیرہ وغیرہ کے شکار ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف ہم ہی کیا ساری اُمت مسلمہ ہی وغیرہ وغیرہ کی شکار ہے۔ چنانچہ جہاں ہم نے اس سے پہلے اتنے یومِ یکجہتی کشمیر منالئے وہاں ایک اور سہی ۔۔۔اس پانچ فروری کو ایک مرتبہ پھر ہم بھی کوئی تقریر کر لیں گے، کوئی کالم لکھ لیں گے، کسی ریلی میں شریک ہو جائیں گے، کوئی شہادت سے لبریز ترانہ سُن لیں گے، دوستوں کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کر لیں گے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی مہذب اور متمدن دنیا میں کشمیر، فلسطین اور یمن سمیت کوئی بھی مسئلہ ، مسئلہ نہیں ہے۔ ہر مسئلہ صرف اس لئے مسئلہ ہے کہ ہم اور ہماری قیادتیں ہر مسئلے پر وغیرہ وغیرہ کی شکار ہیں۔ ہم لوگ قاطعیت، منطق اور حقیقت کے بجائے دوہرے پن اور وغیرہ وغیرہ کے عادی ہیں۔ ہم شاید یہ بھول چکے ہیں کہ مسائل وغیرہ وغیرہ کے بجائے قاطعیت اور منطق سے حل ہوا کرتے ہیں۔ جب تک ہم قاطعیت اور منطق کا راستہ اختیار نہیں کرتے تب تک ظُلم کو نہیں روکا جا سکتا۔ ظلم چاہے کشمیر میں ہو یا یمن میں آپ اُسے وغیرہ وغیرہ سے نہیں روک سکتے۔