گھروں میں عقائد کی تعلیم نذر حافی
کیا کسی کو نظامِ مصطفی ﷺکا نعرہ یاد ہے؟ ہم نظامِ مصطفی ﷺسے لے کر ریاستِ مدینہ تک ایک ہی سکرین دیکھ رہےہیں۔ آج کل سکرین پر نظامِ مصطفی کی طرح ہی ایک قوم اور ایک نصاب کا نعرہ چل رہا ہے۔یوں سمجھئے کہ ہم نے ملک اور قوم کو کس نہج پر لے کر جانا ہے اس کا فیصلہ پسِ پردہ ہو چکا ہے۔یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے فیصلے ہمیشہ پسِ پردہ ہی ہوتے ہیں اور پردہ نشین ہی کرتے ہیں۔ جس طرح ماضی میں ضیاالحق کی آمریت کا نام نظامِ مصطفی ﷺ رکھا گیا تھا اُسی طرح اب ہمارے ہاں سائنس کو داڑھی رکھانے، دینیات کی مونچھیں چٹ کرنے اور مطالعہ پاکستان کی شلوار گھٹنوں تک اونچی کرنے کا نام یکساں نصابِ تعلیم رکھ دیا گیا ہے۔
ہم نے در اصل اس نصابِ تعلیم کے ذریعے موروثی سیاست کا خاتمہ، جناح و اقبال کے نظریات کا احیا، جمہوریت کا فروغ،اتحاد و وحدت کی علمبرداری، قبائلی و دینی تعصبات کا صفایا اور علم و ہنر کا بول بالا کرنا تھا لیکن ہمیں تو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں۔ یہ صاف بات ہے کہ ہمارے ہاں علم کا بول بالا اتنا ضروری نہیں جتنا داڑھی کا ناف تک ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ پسِ پردہ رہ کر نصاب تعلیم سے مشترکات کو ممکنہ حد تک حذف کر دیا گیا ہے اور متنازعہ شخصیات و نکات کو حسبِ استطاعت شامل کر دیا گیا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسلامیات کی مونچھوں پر اُسترا پھیرنے کیلئے درودِ ابراہیمی جیسے چودہ سو سالہ مروجہ درود کو نظرانداز کر کے نیا درود شریف بھی ایجاد کر لیاگیا ہے۔ یہ سب کام وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ہمیں ایک قوم بنانا چاہتے ہیں۔ ان کےدوہرے معیار اورفکری مفلسی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو بدعتی کہتے تھے انہوں نے خود نئے درود کی بدعت ایجاد کر لی ہے۔
سوچنے والوں اور عقل سے کام لینے والوں کو تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جس ملک کے سیاستدان کرپشن میں بے مثل ہیں، علما شدت پسندی میں ایک نمبر ہیں، اداروں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو تا، پائلٹ تک جعلی ڈگریوں سے استفادہ کرتے ہیں، ڈاکٹر لوگوں کو بے ہوش کرکے انُ کے گُردے نکال لیتے ہیں،یونیورسٹیوں سے طالبان، داعش اور القاعدہ جیسے گروہوں کے لوگ پکڑے جاتے ہیں، صحافیوں کی روزانہ پٹائی اور مار کٹائی ہوتی ہے، ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جعلی دوائیوں اور عطائیوں کی بھر مار ہے، ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ملتی۔۔۔ہر بلاول ہے دیس کا مقروض۔۔۔پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے ۔۔۔لیکن اس ملک میں سارے مسائل کو چھوڑ کر لوگوں کی داڑھیوں کے سائز اور سٹائل کیلئے ، اُن کے بنیادی عقائد کو مسخ کرنے کیلئے، ان کی نمازیں اور درود شریف تبدیل کرنے کیلئے اسمبلیاں اور سرکاری کمیٹیاں ہر وقت حرکت میں رہتی ہیں۔پہلے تو عقائد کے نام پرگزشتہ چند دہائیوں میں عام لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا ، اب سکولوں میں ان کے بچوں کے ذہن تبدیل کرنے کیلئے یکساں نصاب کی سوفٹ پاور استعمال کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کچھ ایسے مہربان بھی ہیں جن کا مشورہ ہےکہ نصابِ تعلیم کے مطابق اپنے بچوں کی شلواروں کے پائنچے گھٹنوں تک اور داڑھیاں ناف تک آنے دیں، اُن کے دماغوں پر مسخ شدہ تاریخ اور تکفیری عقائد کا زنگ چڑھنے دیں ۔۔۔باقی آپ خود سمجھدار ہیں اپنے گھر پر بچوں کو اپنے عقائد کی تعلیم دیتے رہیں۔
بچوں کو گھر پر عقائد کی تعلیم دینے کا مشورہ بہت قیمتی ہے۔اس قیمتی مشورے کا بھی ایک پسِ منظر ہے۔یہ بظاہر نرم اور شیرین مگر مہلک مشورہ بھی اپنے پسِ منظر میں چند سوالات لئے ہوئے ہے۔
۱۔ جب بچوں کو گھروں میں ہی عقائد کی تعلیم دینی ہے تو پھر حکومت سکولوں میں عقائد کو چھیڑتی کیوں ہے؟
۲۔جب علمائے کرام کی اپنے عقائد کی حفاظت کیلئے شنوائی کی گنجائش نہیں تو پھر انہیں یکساں قومی نصاب کی کمیٹی میں کس لئے رکھا گیا ہے؟
۳۔ جس نئے نویلے اور خود ساختہ درود کویکساں قومی نصاب کی کمیٹی کے جید علما ہی پڑھنا جائزنہیں سمجھتے ، وہ نصاب کی کتابوں میں کیسے شامل ہوگیا؟
ہم نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا اور آج پھر دہرائے دیتے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان یا غیر مسلم یہ نہیں چاہتا کہ تعلیمی ادارے زبردستی اُس کے بچوں کے عقائد کے ساتھ کھیلیں۔ایسی ہر کوشش قرآن و سنت کی تعلیمات ،آئینِ پاکستان، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔