دہ جماعتیں پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں نذر حافی
یہ 1984- 1985 کی بات ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یونس جاوید اور راشد ڈار نے فن کی دنیا میں کمال کردیا۔قلم کار یونس جاوید تھے اور ہدیت کار راشد ڈار ۔ اس زمانے میں ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ۔ اس وقت آج کل کی مانند ایڈوانس ریکارڈنگ ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ ایک دو دن میں ہی قسط کی لکھائی ، ریہرسل اور ریکارڈنگ کا کام مکمل کیاجاتا تھا۔ یوں ڈیڑھ سال تک پینسٹھ اقساط میں پی ٹی وی سے یہ ڈرامہ نشر ہوا۔ ڈرامے میں چار کردار [ڈائریکٹ حوالدار کرمداد،ایس پی ، تھانیدار اور سب انسپکٹر ] انتہائی اہم تھے۔
یہ ڈرامہ ابھی یوٹیوب پر موجود ہے، قارئین حسب فرصت ضرور دیکھیں۔ اس کی مقبولیت کی اہم وجہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنا تھا ۔ بنیادی طور پر اس میں دو کردار زیادہ نمایاں تھے۔ ایک پڑھےلکھے اور باشعور ایس پی کا کردار تھا جس کے مکالمے سماج اور پولیس کا شعوربلند کرنے کیلئے تھے، اور دوسرا کردار حولدار کرمداد کا تھا کہ جس کا دعوی تھا کہ دہ جماعتیں پاس ہوں ،ڈائریکٹ حوالدار ہوں ،کوئی مزاق نہیں ہو ں ووئے۔۔۔ وقت گزرتا گیا، اور ہمارے بہت سارے ہم عمر جو اس زمانے میں اندھیرا اجالا دیکھ کر خوش ہوتے تھے، بعد ازاں خود دہ جماعتیں پاس کر کے ڈائریکٹ حوالدار بن گئے۔ لگتا ہے کہ ان میں سے جو جس سیٹ پر بیٹھا آج وہ عوام کا وہی حال کررہاہے جو حوالدار کرمداد کیا کرتا تھا۔
خصوصا ہمارے سیکورٹی اداروں کا تعلق چونکہ عوام کی جان و مال اور تحفظ سے ہے اس لئے وہاں پر حوالدار کرمداد کا وجود سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ آج کے دور میں پرانے زمانے کے بڑے اورموٹے رجسٹر لے کر تفتان بارڈر پر لوگوں کی تفتیش کی جاتی ہے۔ بلا مبالغہ تین تین ،چار چار گھنٹوں سے لے کر پانچ پانچ گھنٹے تک ایک ایک فیملی کو بچوں اورخواتین سمیت لائنوں میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔
آپ کا نام کیا ہے؟ ابو کا نام کیا ہے؟ بیوی کا نام کیا ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ شادی کہاں سے کی ہے؟ نکاح خوان کون تھا؟ یہ ساری چیزیں ان رجسٹروں میں پھرسے لکھی جاتی ہیں۔یوں لگتا ہے کہ جیسے ان اداروں کو آج تک یہ نہیں پتہ کہ کمپوٹرائزڈ شناختی کارڈ و پاسپورٹ و نکاح نامے اور ویزے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ ساری اطلاعات کمپیوٹرازڈ شکل میں نادرا کے پاس موجود نہیں ہیں ؟
بارڈر سے ہٹیں توپاکستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ بھی انتہائی خطرناک حدوں کو چھورہا ہے۔ مسئلہ وہاں بھی جدید ٹیکنالوجی اوراخلاقی و شعوری تربیت کے فقدان کا ہے۔ ہمارے تفتیشی اداروں میں انگریزوں سے بھی قدیمی نظام رائج ہے، پرانا چودھری اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کیلئے اپنے علاقے کے تھانے اور چوکی کو خریدے ہوئے ہے، اور وسیع اختیارات کے باعث وہی قدیمی تھانیدار و حوالدار اپنے چہیتے کھوجی بابوں کے ذریعے چوروں کا سراغ اُنہی پرانے طریقوں سے لگاتےہیں،من پسند لوگوں کو زبردستی اٹھاکرٹارچر سیلوںمیں لے جاتے ہیں، جس کے بعد کہیں کوئی قانون نہیں اور کوئی عدالت نہیں۔
ہماری متعلقہ حکام سے استدعا ہے کہ ایک طرف تو آپ تفتان بارڈر کی خبر لیں۔بارڈر پر موٹے موٹے رجسٹر بھرنے اور بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو خواہ مخواہ بھوکا پیاسا اور سخت گرمی میں روڈ پر کھڑا کرنے کے بجائے تفتان میں ڈیٹا ریڈنگ کی ٹیکنالوجی استعمال کریں اور لوگوں کو اس عذاب سے نجات دیں۔
دوسری طرف مسنگ پرسنز کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، سیکورٹی اداروں کے اختیارات میں بے پناہ اضافے کے بجائے اُنہیں جدید ٹیکنالوجی اور پڑھالکھا عملہ فراہم کریں۔ اداروں کو ماورائے قانون بنانے کے بجائے انہیں قانون کی اہمیت سمجھائیں ۔ انہیں ہر لحاظ سے اپڈیٹ کریں۔ ہم یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اہلکاروں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار دینے سے وہ ماڈرن نہیں ہوجاتے بلکہ اس سے وہ مزید خطرناک ہوجاتے ہیں۔پھر سانحہ ساہیوال جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ انہیں اپڈیٹ کرنے کیلئے ان کی ٹریننگ، سوچ اور فکر کو ماڈرن کریں۔انہیں انسانی حقوق، قانون کی اہمیت، عوام کا احترام، حالاتِ حاضرہ سے آگاہی، مشکلات کو حل کرنا، بات کرنے کاسلیقہ ، چھوٹے و بڑے سےہاتھ ملانے کا اسلوب اور مظلوم لوگوں کی مدد کرنا سکھائیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اندھیرے اجالے کی ڈرامہ سیریل میں ایک ایس پی کا کردار تھا جو گشت کیا کرتا تھا اور شعورکی سطح کو بلند کرنے کیلئے اپنے ماتحتوں سے کم از کم ایک آدھ جملہ ہی کہہ دیتا تھا۔ لیکن اب یہاں اس ملک میں تو کوئی ایسا ایس پی بھی نہیں رہا جو تفتان بارڈر کا گشت کرے یا مسنگ پرسنز کے مسئلے کو سنجیدگی سےلے۔ہرطرف ایک ہی آواز ہے:
دہ جماعتیں پاس ہوں ،ڈائریکٹ حوالدار ہوں ،کوئی مزاق نہیں ہو ں ووئے۔۔۔