بھارت، مبینہ ’Love جہاد‘ روکنے کیلئے سخت قانونی مسودہ منظور
بھارت کی ریاست اتر پردیش کی حکومت نے مبینہ ’لو جہاد‘ روکنے کیلئے اقدام کیا ہے، یوپی کابینہ نے شادی کے لیے مذہب کی جبراً تبدیلی کے خلاف سخت قانونی مسودے کی منظوری دے دی۔زبردستی مذہب تبدیل کرا کے شادی کرنے والوں کو 10 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔شادی کیلئے مذہب تبدیل کرنے والوں کو 2 ماہ قبل ضلعی مجسٹریٹ سے اجازت لینا ہو گی۔رڈیننس کے مسودے کے تحت زبردستی سے مذہب کی تبدیلی پر 3 سے 10 سال تک کی جیل کی سزا اور 15 سے 50 ہزار تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔جبری مذہبی تبدیلی کے متاثرہ شخص کو 5 لاکھ ہرجانہ ادا کیا جائے گا۔یو پی کے گورنر کی منظوری کے فوری بعد آرڈیننس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا، آرڈیننس کو مذہب کی تبدیلی کے خلاف سخت قانون قرار دیا جا رہا ہے۔اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں مبینہ ’لو جہاد’ کے خلاف قانون بنانے کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ بھارت کی 5 ریاستوں میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ مبینہ ’لوجہاد‘ کے خلاف جلد از جلد سخت قانون لانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹک، اترپردیش اور آسام نے مبینہ ʼلوجہاد‘ کے خلاف قانون سازی کا اعلان کیا تھا، ان پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔بھارت میں گو کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی کم از کم 5 ریاستی حکومتوں نے مبینہ ʼلوجہاد‘ کے خلاف قانون سازی کا اعلان کیا ہے تاہم مرکز کی مودی حکومت، قومی خواتین کمیشن، عدالتیں اور متعدد پولیس تفتیش آج تک اس دعوے کی تصدیق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہیں کہ مسلمان مرد ʼلو جہاد‘ کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت ʼلوجہاد‘ کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار یا اس کی واضح تعریف پیش کر سکی ہے۔’لوجہاد‘ بھارت میں ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ایک ایسا شوشہ ہے جس کی آڑ میں اب تک درجنوں افراد ہلاک کیئے جا چکے ہیں اور ان کے خاندان والوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ہندو شدت پسندوں کا الزام ہے کہ مسلمان مرد اپنی محبت کے دام میں غیر مسلم خواتین کو پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں جو دراصل ʼلوجہاد‘ ہے۔ہندو شدت پسند تنظیمیں مبینہ ’لوجہاد‘ کے خلاف ہمیشہ ہنگامے کرتی رہی ہیں اور بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر اس کے خلاف قانون سازی کے لیے اپنا دباؤ تیز کر دیا ہے۔