کیف عظیم آبادی میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد
پٹنہ (نمائندہ خصوصی) ماں کی اہمیت کیا ہے اس بات سے آپ سب بہ خوبی واقف ہیں، اسی طرح مادری زبان کی بھی اہمیت ہے۔ راشٹر یہ زبان کی بھی اہمیت ہے، ریاستی زبان کی بھی اہمیت ہے، لیکن مادری زبان کی اہمیت مسلم ہے۔ ان خیالات کا اظہار کیف عظیم آبادی میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقد سیمینار کے آخری دن (بہ موقع بین الاقوامی یوم مادری زبان ) وائس چانسلر پٹنہ یونیورسٹی پروفیسر راس بہاری نے کیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کا بٹوارہ ایک سمجھوتہ تھا،اور سیاست کی بنیاد پر ہوا تھا۔زبان کی بنیاد پر نہیں ہوا تھا۔سیاست سرحد کی تقسیم تو کر سکتی ہے زبان و تذیب کی نہیں کر سکتی ہے۔اس موقع پر شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر جاوید حیات نے کہا کہ زبان تو خدا کی بڑی نعمت ہے ،اس لیے ہم سب کو اس کی ترویج واشاعت میں اہم کردار ادا کر نا چاہیے۔آج ہم اپنے بچوں کو انگلش کی تعلیم تو دلاتے ہیں لیکن اردو سے بے اعتنائی برتتے ہیں جو اپنی زبان اردو کے ساتھ نا انصافی ہے۔سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے مادری زبان کی اہمیت و افادیت پر خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کو اپنی ماں فی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔بچہ جو زبان سیکھتا ہے وہی اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اردو زبان نہ بولی جاتی ہو لیکن ہم اپنی مادری زبان سے مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔نئی نسل اپنی لسانی ثقافت بھولتی جا رہی ہے۔نظامت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ زبان سے ادب زندہ رہتا ہے۔اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے مادری زبان سے محبت لازمی ہے۔شعر و ادب کی محفلیں زبان کو کو زندہ رکھنے کی ہی کوششیں ہوتی ہیں۔شعبہ اردو ہمیشہ اس کوشش میں آگے رہتا ہے۔پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈولی سنہا نے کہا کہ ہم گارجین سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو دو چار زبان ضرور سیکھنے کا مشورہ دیں لیکن مادری زبان سیکھنے پر زیادہ توجہ دیں۔کیوں کہ مادری زبان دلوں کو جوڑتی ہے۔سیمینار کے بعد ایک شعر ی محفل منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر طلحہ رضوی برق نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر جناب سلطان اختر نے شرکت کی اور نظامت فخرالدین عار فی نے کی۔اس موقع پر شعرا میں سلطان اختر،طلحہ رضوی برق،خورشید اکبر،ڈاکٹر اسرائیل رضا،معین گریڈ یہوی،نیاز نذر فاطمی، معصومہ خاتون،کامران غنی صبا،حذیفہ شکیل،عارف حسین،شمیم قاسمی،ضیائ،العظیم،شمع کوثر،یوسف جمیل، مظہر وسطوی، نصر بلخی، وارث، تحسین روزی، اثرفریدی، سلیم انور ،ابصار بلخی، فرحت نادر رضوی،تبسم ناز وغیرہ نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا۔اخیر میں تمام لوگوں کا ٹرسٹ کے ڈائریکٹر آصف نواز نے شکریہ ادا کیا۔پروگرام میں پٹنہ کے ادبا ، شعرا، ریسرچ اسکالرز، طلبہ و طالبات کے علاوہ بڑی تعداد میں شعرو ادب سے شغف رکھنے والوں نے شرکت کی۔مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے
پروفیسر طلحہ رضوی برق
یہ چادر زندگی کی برق میلی ہو نہیں سکتی
کہ بس میں تانا ہے اللہ کا بانا محمد کا
سلطان اختر
عظمتِ رفتہ کے کچھ نقش منور تو رہیں
اپنی تہذیب کو تم اور برہنہ نہ کرو
خورشید اکبر
اپنی سانس پر قائم یہ زمیں ہے کتنی دیر
ہم جہاں بھی ہوتے ہیں آسماں نہیں ہوتا
علی منیر
دشمنوں سے گلے ملتا ہوں دعا دیتا ہوں
نیکیاں کر کے میں دریا میں بہا دیتا ہوں
شمیم قاسمی
تاریخ قصیدے کی لکھنے کو قلم آتے
کچھ خواب لیے ہم بھی تب سوئے حرم آتے
اثر فریدی
جو ہے عروج تو امکان ہے بگڑنے کا
تمہارے سامنے اک آئینہ ضروری ہے
ڈاکٹر اسرائیل رضا
اِس دورِ فرعونی میں مل جائے اگر موسیٰ
تاریخ رقم کرنے سونے کے قلم آتے
کامران غنی صبا
امیرِ شہر سے کہہ دو کہ اپنی حد میں رہے
غرور جب بھی بڑھا ہے تو سرکشی ہوئی ہے
نیاز نذر فاطمی
دولت و زر ہو کہ عہدہ ہو کہ رشتہ داری
ان سے مجروح انا ہو تو گوارا نہ کرو
نصر بلخی
شدتِ کفر سے بڑھ کر ہے منافق ہونا
اپنے چہرے پہ نیا چہرا لگایا نہ کرو
معین گریڈہوی
میں نے ٹھکرایا زمانے کو تمہاری خاطر
مجھ کو مشکوک نگاہوں سے تو دیکھا نہ کرو
مظہر وسطوی
رات دن جھوٹی محبت کا تماشا نہ کرو
دل فدا کر دو مگر سر کو جھکایا نہ کرو
تحسین روزی
اس دھوپ کی شدت میں پیراہنِ نم آئے
‘آواز تو دی ہوتی ہم تیری قسم آتے”
یوسف جمیل
تھے چور بہت غم سے آئے ہیں یہاں ورنہ
میخانے میں ائے ساقی یوں کاہے کو ہم آتے
تبسم ناز
دیکھو بچپن تو ہے نادان کھلونے دو اسے
لاکھ وہ روٹھے مگر تم کبھی روٹھا نہ کرو
شمع کوثرشمع
مٹ جاتے گلے شکوے مٹ جاتی یہ دوری بھی
ہم چار قدم بڑھتے تم ایک قدم آتے
حذیفہ شکیل
آتشِ ہجر میں جلنا ہے گوارا مجھ کو
سرِ بازار محبت کو تماشا نہ کرو
ضیاء العظیم
خود کو ائے جانِ وفا اتنا بھی رسوا نہ کرو
‘تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسا نہ کرو’
عارف حسین نوری
وفا کا صلہ جو وفا مل رہا ہے
محبت میں یہ سب گوارا کروں میں
ابصار بلخی
شورشِ ہجر کے لمحات بہت ہیں بلخی
وصل اک بار ہے ملنے کی تمنا نہ کرو