قائد اعظم ؒکی قیادت
لاہور (نمائندہ خصوصی) اور اللہ کا کرم کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے دوران ان صفات کا حامل قائد میسر آیا جس نے ہمیں حصول پاکستان کی منزل تک پہنچایا۔ اس میر کارواں کو دنیا محمد علی جناحؒ کے نام سے جانتی ہے اور ہم نے فرط عقیدت سے اسے قائد اعظمؒ کہا اور یہ لقب اس کی سچی قیادت کے تاج میں ایک تابناک ہیرے کی طرح جگمگایا۔ قائد کی قیادت ، ان کی شخصیت کی صداقت کے حوالے سے ملی وحدت کی علامت بن گئی اور بہ حیثیت مسلمان ہماری صدیوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے امکانات روشن ہوگئے۔ ان کی رہنمائی نے ہمارے اندر خود شناسی کا جوہر بیدار کیا ان کے کردار کے جلال ، عزم کے جمال اور گفتار کی صداقت نے ہمیں ’’ایمان ، اتحاد اور تنظیم‘‘ کے معانی سمجھائے اور ان کا نام ہمارے ملی تشخص کی علامت بن گیا۔ حصول پاکستان کی تحریک کے دوران ایک زمانہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگا تھا کہ یہ کیسی قوم ہے اور یہ کیسا قائد ہے جو نہ مخالف کی طاقت سے گھبراتا ہے نہ تعداد سے ، منزل کی دشواریوں سے دل شکستہ ہوتے ہیں نہ خطرات سے ، انہیں نہ دھوکہ دیا جاسکتا ہے ، نہ خوفزدہ کیا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے عزم ، ارادے ، بے خوفی اور جذبہ ایمانی نے ایک پیکر خاکی کی شکل اختیار کرلی تھی اور محمد علی جناحؒ نام پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کے معیار کی کامیابی دنیا میں بہت کم رہنماؤں کو میسر ہوئی ہے ان کی مخالفت پر دو بہت بڑی طاقتیں کمربستہ تھیں یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت۔ پھر جس وقت انہوں نے حصول پاکستان کے لئے مسلمانوں کی قیادت کا فیصلہ کیا اس وقت بظاہر برصغیر کے مسلمان منتشر اور کمزور نظر آرہے تھے ۔ قائد اعظم صرف ہمارے وکیل نہیں تھے وہ اس فکر کا عملی نمونہ تھے جس نے اقبال کی شاعری کو توانا اور محکم بنایا ہے۔ اسلام ظاہر پرستی سے عبارت نہیں ، اسلام کی شرط اول فکر کی ضمانت اور خیال کی پاکیزگی ہے۔ قائداعظم ؒکی ساری زندگی گواہ ہے کہ سستی شہرت کے وہ کبھی طالب نہیں ہوئے اور منفی سیاست ان پر کبھی غالب نہیں آئی۔ قائد اعظمؒ نے کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کی جس سے انہیں مسلمانوں میں جذباتی ناموری حاصل ہوجاتی۔قوموں کی زندگی میں حقیقی اہمیت تو افکار کی ہوتی ہے اور ان تحریکوں کی جو ان افکار سے پیدا ہوتی ہیں لیکن تحریکوں کی روح وہ افراد ہوتے ہیں جن کے حسن عملی اور اعلیٰ کردار سے وہ افکار قومی زندگی میں اثرپذیر ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں قومیں آزمائش کے مرحلوں سے گزر کر کامیابی کی منزلوں تک پہنچتی ہیں۔قیام پاکستان ایک سمت برصغیر کی امت مسلمہ کے لئے ایک تاریخ ساز کامیابی کی علامت ہوا تو دوسری سمت مخالف قوتوں کے لئے یہ شدید ناکامی اور محرومی کی علامت بھی بنا چنانچہ اس قدر واضح ناکامی کے بعد ان قوتوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے۔ اب کوششیں یہ ہورہی ہیں کہ ان مقاصد کو ہی فکری انتشار کا نشانہ بنایا جائے جن کے حصول کے لئے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی گئی ۔ تاریخ کے آئینے میں قائد اعظم ؒکے خدوخال بہت نمایاں ، بہت روشن ہیں۔ انسان کی شخصیت کی طرح تاریخ کا آئینہ بھی پہلو دار ہوتا ہے اور اس آئینے میں قائد اعظم کی شخصیت کا ہر پہلو نمایاں اور آئینے کی طرح ہی صاف و شفاف ہے۔ حصول علم میں بھرپور محنت سے کامیابی حاصل کی ، وکالت کے فرائض ادا کرتے ہوئے زندگی بھر دیانت اور امانت سے کام لیا، دل میں حصول آزادی کی لگن تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے ملّی تشخص کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہونا ہی اس کا بھرپور ثبوت ہے کہ وہ نظری اور عملی دونوں اعتبار سے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے قائل تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بھرپور کوشش کی لیکن مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت میں ضم ہوجانے کا مشورہ کبھی نہیں دیا اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان دونوں قوموں کے مابین باعزت بقائے باہمی کا سمجھوتہ ممکن نہیں تو انہوں نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حصول کے لئے کاروان ملت کی قیادت کی اور تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ سچی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ عالمی سطح پر مسلم امہ کی بیداری کی راہ بھی ایک نمایاں اور کشادہ ہوتی چلی جارہی ہے۔ قائد اعظم سیدھے سادھے اور سچے مسلمان تھے جب ۔انہوں نے یہ کہا کہ برصغیر کے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں تو یہ بات انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر یا مسلمانوں میں سستی شہرت کے حصول کے لئے نہیں کہی تھی۔ وہ دل سے مسلمانوں کے ملّی تشخص کے قائل تھے اور بالکل اسی طرح وہ دل کی گہرائیوں سے پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے آرزو مند تھے۔قائد اعظمؒ متعصب بھی نہیں تھے کیونکہ اسلام بنیادی طور پر تکریم آدمیت کا درس دیتا ہے لیکن وہ ’’لادین‘‘ ہونے کے معنوں میں سیکولر ہر گز نہیں تھے۔ وہ پاکستان میں کسی قیمت پر اس نوعیت کے سیکولر نظام کے قیام کے حامی نہیں تھے جیسا نظام مملکت اقوام مغرب نے اپنالیا ہے۔ قائد اعظم اللہ پر اور اللہ کے آخری رسولؐ، آخری پیغمبر کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتے تھے اور پاکستان میں وہ اسی نظام حکومت کے قیام کے آرزو مند تھے جس کو عصر حاضر میں حقیقی معنوں میں اتباع سنت نبوی ؐقرار دیا جاسکے۔ قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری سالانہ اجلاس میں جو کراچی میں منعقد ہوا تھا دسمبر 1943ء کے آخری ہفتے میں اپنے خطبہ صدارت میں واضح الفاظ میں فرمایا تھا۔ ’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے ہم مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے ؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اس پورے پس منظر میں ’’ایمان ، اتحاد ، تنظیم‘‘ کے معانی واضح ہوجاتے ہیں۔