کراچی: اگر کسی شخص کے جسم کو مرنے کے بعد زمین میں دفنانے کے بجائے خلا میں چھوڑ دیا جائے تو کیا ہوگا؟ بظاہر یہ سوال احمقانہ لگتا ہے لیکن ایسا ہونا کچھ ناممکن بھی نہیں اور ایسی صورت میں بہت ہی دلچسپ جوابات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ویسے تو آج کل خلا میں جانا بہت مہنگا سودا ہے لیکن شاید آنے والے عشروں میں خلا کا سفر بہت کم خرچ ہو جائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ اکیسویں صدی کے اختتام تک خلا میں پہنچنا اتنا ہی آسان اور کم خرچ ہوجائے جتنا آج ایک سے دوسرے ملک کا سفر ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمین پر تنگ پڑتی ہوئی جگہ کے پیشِ نظر مستقبل میں ’’خلائی قبرستان‘‘ کا رواج پڑ جائے۔ یہ اس لیے بھی ممکن محسوس ہوتا ہے کیونکہ خلا بہت ہی بڑی جگہ ہے، اتنی بڑی کہ ہمارا سیارہ زمین اس پورے نظامِ شمسی میں ایک نقطے جیسی حیثیت رکھتا ہے۔اب فرض کیجیے کہ اگر کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے جسدِ خاکی کو خلا میں چھوڑ دیا جائے جبکہ وہ کسی حفاظتی خول وغیرہ میں بند بھی نہ ہو تو چند گھنٹوں، چند دنوں، چند مہینوں اور یہاں تک کہ کئی برسوں کے بعد اس کے جسم پر کیا بیتے گی؟اب تک اس بارے میں کوئی تجربہ تو نہیں کیا گیا لیکن کچھ سائنسی اندازے ضرور لگائے گئے ہیں جو بڑی حد تک مناسب بھی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اندازے کیا ہیں؟ ملاحظہ کیجیے:خلا میں نہ تو ہوا ہوتی ہے اور نہ ہی نمی، یعنی اگر کسی مردہ جسم کو خلا میں چھوڑ دیا جائے تو اس میں موجود نمی بڑی تیزی سے ختم ہو گی۔ چونکہ انسانی جسم کا 80 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے ماہرین کا اندازہ ہے کہ مُردہ جسم کے خلا میں چھوڑے جانے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ہی اس کی کمیت صرف 20 فیصد رہ جائے گی۔زمین پر زندہ حالت میں تن و مند دکھائی دینے والا 100 کلوگرام وزنی انسان جب مرنے کے بعد خلا میں پہنچے گا تو کچھ ہی دیر میں وہ صرف 20 کلوگرام وزنی رہ جائے گا۔ وہ ہڈیوں کا ایک ایسا ڈھانچہ بن چکا ہوگا جس پر کھال منڈھی ہوگی۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف ایک گھنٹے میں وہ شخص ایک ’’خشک ممی‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔
یہ بھی یاد رہے کہ پانی وہ مادّہ ہے جو زندگی کی اہم ترین ضرورت بھی ہے اس لیے پانی کی عدم دستیابی پر انسانی جسم میں موجود تمام جراثیم بھی بڑی تیزی سے ختم ہوجائیں گے یعنی خلا میں مُردہ انسانی جسم گلنے سڑنے سے بھی محفوظ رہے گا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خلا میں مُردہ جسم کو جراثیم مرجانے کے بعد گلنے سڑنے کا سامنا نہیں ہوگا تو کیا وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا؟ اس سوال کے مختلف جوابات ہیں۔اگر مُردہ جسم زمین کے گرد نچلے مدار میں گردش کر رہا ہو گا تو اس کا مدار بتدریج مختصر ہوتا چلا جائے گا اور چند گھنٹوں سے لے کر چند دنوں کے اندر اندر ہی وہ زبردست رفتار کے ساتھ زمینی کرہ ہوائی میں داخل ہوجائے گا۔ یہاں ہوا کے ذرّات سے شدید رگڑ اور زبردست درجہ حرارت کی وجہ سے وہ صرف چند لمحوں میں جل کر راکھ ہوجائے گا اور بالائی کرہ ہوائی میں بکھر جائے گا۔ زمین سے دیکھنے پر یہ منظر شہابِ ثاقب کی طرح دکھائی دے گا۔اس سے کچھ زیادہ بلندی پر وہ مدار ہے جہاں ’’خلائی ملبے‘‘ (space debris) کی بڑی مقدار زمین کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ صرف چند ملی میٹر باریک ذرّات سے لے کر چند سینٹی میٹر جتنے بڑے ٹکڑوں پر مشتمل اس خلائی ملبے کا بڑا حصہ پرانے مصنوعی سیارچوں اور خلائی راکٹوں کی باقیات پر مشتمل ہے اور اس کی رفتار کئی کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔اگر کوئی میت اس مدار میں ہوگی تو قوی امکان ہے کہ خلائی ملبے کے ٹکڑے اس سے بھی ٹکرائیں گے اور اپنی غیرمعمولی تیز رفتار کی وجہ سے لاش پر گڑھے ڈال سکتے ہیں اور اگر ٹکرانے والے ملبے کی جسامت زیادہ ہوئی تو ایسا ایک ہی ٹکڑا میت کے پرخچے اُڑا دینے کے لیے کافی ہو گا۔اس سے بھی اوپر تقریباً 36 ہزار کلومیٹر کی بلندی پر وہ مدار ہے جس میں مواصلاتی سیارچے زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں اور جسے ’’ارض ساکن مدار‘‘ (جیو اسٹیشنری آربٹ) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مدار قدرے پر سکون ہے اور یہاں پہنچنے والی میت کے لیے خلائی ملبے سے ٹکرانے کے امکانات خاصے کم ہیں۔البتہ، مدار چاہے کوئی بھی ہو لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ خلا میں بھیجی جانے والی کسی بھی میت کو (خصوصی حفاظتی انتظامات کے بغیر) سورج سے آنے والی خطرناک شمسی ہواؤں اور کائناتی شعاعوں کی بڑی مقدار کا سامنا کرنا پڑے گا جو اسے کچھ ہی عرصے میں جھلسا کر کوئلے جیسا سیاہ کردیں گی۔ تب یہ خلائی لاش کسی بے ہنگم پتھر کی طرح دکھائی دے گی۔یہ تو ہوئی زمینی مدار میں میت پہنچانے کی بات لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی لاش زمین کے بجائے سورج کے گرد مدار میں پہنچا دی جائے۔ تب کیا ہو گا؟اگر سورج کے گرد ایسی کسی لاش کا مدار چھوٹا ہوا یعنی اس کا فاصلہ سورج سے کم ہوا تو اس کا حشر بھی کم و بیش وہی ہوگا جو زمینی مدار میں چکر لگانے والی کسی لاش کا ہو سکتا ہے، اور جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا جاچکا ہے۔تاہم اگر وہ میت کسی بہت بڑے مدار میں پہنچا دی جائے جہاں وہ سورج سے بہت فاصلے پر رہتے ہوئے اس کے گرد چکر لگا رہی ہو تو اس تک پہنچنے والی شمسی ہواؤں کی شدت بھی بہت کم رہ جائے گی یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے انتہائی سرد اور قدرے محفوظ ماحول کا سامنا ہو گا جہاں وہ ہزاروں لاکھوں سال تک اسی حالت میں رہتے ہوئے چکر لگاتی رہے گی۔دور دراز خلا کا ماحول انتہائی سرد بھی ہوتا ہے جس کا اوسط درجہ حرارت صرف 2.73 ڈگری کیلون یعنی منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتا ہے۔ خلا کے اس تاریک اور شدید سرد ماحول میں کوئی بھی لاش برف سے بھی زیادہ ٹھنڈی رہے گی اور اگر اسے کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا نہیں پڑا تو وہ کروڑوں اربوں سال تک تقریباً اسی حالت میں رہے گی۔