امینوئل ماکروں اور میرین لوپین میں سے کون فرانس کا نیا صدر ہو گا۔ منظور جنجوعہ
فرانس کی اِس وقت آبادی چھ کروڑ انہتر لاکھ نوے ہزار آٹھ سو چھبیس افراد پر مشتمل ہے، جس میں تین کروڑ چوبیس لاکھ پچپن ہزار آٹھ سو انسٹھ مر د جبکہ خواتین کی تعداد تین کروڑ پینتالیس لاکھ چونتیس ہزار نو سو سڑسٹھ ہے،یعنی کہ مردو ں کے مقابلے میں بیس لاکھ اسی ہزار کے قریب خواتین زیادہ بنتی ہیں۔فرانس میں اِس وقت اٹھارہ ہزار چھ سو بتیس شہری سو سال سے زائد عمر کے ہیں ۔حالیہ مرد شماری کے مطابق فرانس میں پندرہ سے تیس سال کے درمیان نوجوان نسل کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے اور اتنی ہی تعداد میں پندرہ سال سے کم عمر بچے ہیں۔ پونے دو کروڑ سے زائد آبادی ساٹھ سے سو سال کے درمیان عمرکی ہے جو حکومتی خرچے یعنی کہ پنشن،بے روزگاری الاؤنس،ماہانہ انکم سپورٹ پروگرام، عمر رسیدہ شہریوں کی مالی امداد کے پروگرام وغیرہ پر گزار کر رہی ہے۔ان شہریوں کی بڑی تعداد کو بہت سی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے اور انکے علاج معالجے پر حکومت کوبہت بڑا خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے سوشل سیکورٹی اور اولڈ ایج بینی فٹ کا ادارہ دیوالیہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔نوجوان نسل کی بے روزگاری کے علاوہ چالیس سے ساٹھ سال کی عمر کے دو کروڑ شہری ملک کے معاشی حالات سے سخت پریشان ہیں ان کو ڈر ہے کہ کہیں انکی ملازمت نہ چھوٹ جائے ،انہیں خدشہ ہے کہ اگر نوکری چھوٹ گئی تو دوبارہ ملنا مشکل ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ فرانس کی پچاس سال سے زائدعمر کی آبادی تقریباً تین کروڑ سے زائد ہے یعنی کہ آدھی آبادی بوڑھی ہوچکی ہے اور بیس فیصد بچے ہیں جبکہ متحرک اور صلاحیتوں اور قوت کے حامل نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے ۔حالیہ مردم شماری کے مطابق گذشتہ صدی یعنی کہ انیس سو سولہ کے بعد پیدا ہونے والے شہریوں کی تاریخ پیدا ئش کے حساب سے بچوں،نوجوانوں،مڈل ایج،ریٹارئرڈ ،عمررسیدہ اور صدسالہ شہریوں کی لسٹ دیکھ کر یہ سامنے آتا ہے کہ پچاس سال سے زائد عمر کے شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ آبادی نوجوان کام کرنیوالوں پر انحصار کرتی ہے یعنی کہ نوجوان کام کرنیوالوں کے ٹیکس سے انکا علاج معالجہ اور خوراک کے اخراجات چل رہے ہیں۔پچاس فیصد سے زائد آبادی بوڑھی ہوچکی ہے اور کام کاج کے قابل نہیں ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فرانس بوڑھا ہو چکا ہے اور فرانس کو نوجوان خون کی اشد ضرورت ہے لیکن امیگرنٹس مخالف سیاست اور بے روزگاروں کی فوج نے انہیں غیر ملکی نوجوان محنت کشوں کے تازہ خون اور کوالیفائڈ ورکرز سے بھی محروم کر دیا ہے۔یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ جتنے بھی غیر ملکی یورپی ممالک میں کام کرتے ہیں انکی اکثریت بیس سے پچیس سال یہاں کا م کرتی ہے اور پھر صحت جواب دے جاتی ہے یاگھریلوالجھنوں کے باعث وہ اپنے وطن کی راہ لیتے ہیں یعنی کہ بیس پچیس سال تک کام کرنے اور یورپی ممالک کے خزانے میں ٹیکس جمع کروانے کے باوجود پنشن جیسی سہولت کا فائدہ اٹھانے والے غیر ملکیوں کی تعداد کبھی بھی ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں رہی ۔جس کا واضح مطلب یہ بنتا ہے کہ امیگرنٹس یورپی ممالک کے اداروں کو ٹیکس کے ذریعے مضبوط کرتے ہیں اور فرانس سمیت یورپ بھر کے بوڑھوں کی پنشن ،علاج معالجے اور سرکاری امداد دینے کا سامان پیدا کرتے ہیںمگر خود ایسی سہولتوں سے بڑھاپے میں فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں ۔ یورپ میں قوم پرستانہ نظریات عروج پر ہیں اور غیر ملکیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے اور ملک پر بوجھ قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے جو حقائق سے بالکل مختلف ہے۔فرانس کی معاشی بدحالی ، امیگرنٹس مخالف قوانین اور سیاسی بیانات کی بنا پر اب غیر ملکی نوجوانوں کی اکثریت برطانیہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا، سویڈن ، ڈنمارک،سوئٹزرلینڈ، دبئی وغیرہ جانے کو ترجیح دیتی ہے ۔فرانس میں اِس وقت بے روزگاری کی شرح دس فیصد ہے ، ترقی کی شرح نہ ہونے کے برابر یعنی کہ زیرو اعشاریہ چار فیصد ہے جبکہ مہنگائی شرح ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے۔اِس وقت فرانس میں کام کے متلاشی افراد کی تعداد چھتیس لاکھ کے قریب ہے جن میں اٹھائیس لاکھ سے زائد کو حکومت بے روزگاری الاؤنس دے رہی ہے باقی افراد لوگ ابھی تک جاب کی تلاش میں ہیں اور چونکہ ایسے افراد نے کبھی کام نہیں کیا اس لئے وہ ابھی تک بے روزگاری الاؤنس کے حق دار نہیں بنے۔فرنچ لیبرلاز کے مطابق جب کوئی شخص کام کرتا ہے اور اس کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے تبھی جاکر وہ جاب چھوٹنے کی صورت میں بے روزگاری الاؤنس کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔بہت سے لوگوں کوہفتے میں دو چار گھنٹے کام مل جاتا ہے تو انہیں بھی بے روزگاروں کی لسٹ سے نکال دیا جاتاہے ۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جوایک لمبے عرصے تک بے روزگاررہتے ہیں اور انکا الاؤنس لینے کا ٹائم پورا ہوجاتا ہے انہیں بھی بے روزگاری الاؤنس کی لسٹ سے نکال کرحکومتی امدادپر پلنے والے بے روزگاروں کی لسٹ میں شامل کرلیا جاتا ہے۔اس لئے روزگاری ڈھونڈنے والوں اور بے روزگاری الاؤنس لینے والوں کی تعدادمیں واضح فرق ہے۔کم ترین شرح ترقی اور روزگار کے متلاشی افراد کی کثیر تعداد کو دیکھ کر فرانس کی معاشی ابتری کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔ایسے معاشی ابتر ی کے حالات میں تائیس اپریل کو فرانس کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہوگی جس کیلئے گیارہ امیدوار میدان میں ہیں جن میں پانچ امیدواروں کے درمیان اچھے مقابلے کی توقع ہے۔اِس وقت فرانس میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد چارکروڑ چھپن لاکھ اٹھہتر ہزار سے زائد ہے ۔پہلے مرحلے میںجو دو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ لیں گے انکے درمیان دوسرے مرحلے میں سات مئی کو ون ٹوون مقابلا ہوگا۔۔ توقع یہی کی جارہی ہے کہ جود و امیدوار بھی پہلے مرحلے میں ستر لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ووٹ لے گا انہی کے درمیان دوسرے مرحلے کا مقابلا ہو گا۔دوسرے مرحلے میں جوامیدوار بھی پچاس فیصدسے زائد ووٹ لے گا وہی فرانس کا صدر ہوگا۔ پہلے مرحلے میں پانچ امیدواروں امینوئل ماکروں ،میرین لوپین،فرانسوا فی یوں ،جاں لوک ملوںشوں اور بنوا حاموں فیورٹ قرار دیئے جارہے ہیں ان میں سے دو امیدواروں امینوئل ماکروں اور میرین لوپین کے درمیان پہلے مرحلے میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے اور عوامی سروے بھی انہیں دو امیدواروں کو پہلے اور دوسرے نمبر پر ظاہرکررہے ہیں۔اگر آئندہ چار دنوں میں حالات پہلے کی طرح چلتے رہے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس مرتبہ فرانسیسی عوام ملک کی دو بڑی جماعتوں سوشلسٹ اور ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کو پہلے مرحلے میں مسترد کردیں گے ۔قوم پرستانہ نظریات کے عروج کے باوجود بائیں بازوکا سنٹرسٹ نظریات کا حامل شخص فرانس کا صدر بن سکتا ہے جو ایک طرح کا سرپرائز ہی ہو گا۔