بہار اردو اکادمی کی’عالمی اردو کانفرنس ‘اردو کے نام پر اکادمی کے فنڈ کی بربادی ہے : ڈاکٹر سید احمد قادری
پٹنہ (پریس ریلیز) بہار اردو اکادمی، کی مجلس عاملہ کے رکن ڈاکٹر سید احمد قادری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بہار اردو اکادمی کی جانب سے منعقد ہونے والی ‘عالمی اردو کانفرنس’ اردو کے نام پر سرکاری پیسے کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت بہار نے دو کروڑ کی رقم اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے متخص کیا ہے۔ لیکن اکادمی نے جس برق رفتاری سے سیمینار، کانفرنس اور مشاعرے کا انعقاد کیا ہے ، اس نے صرف اس ملک کا ہی نہیں بلکہ عالمی ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ لیکن حاصل کیا ہوا ، یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے۔ بہار کے بہت سارے محبان اردو مجھ سے اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنے سیمینار ، کانفرنس اور مشاعرے کی بجائے اکادمی نے اب تک بنیادی سطح پر اردو زبان کو مستحکم کرنے کے لئے کیا کچھ لاحۂ عمل تیار کیا ہے اور کس حد تک کام ہوا ہے ۔ میں ایسے سوال پر خاموش ہی رہتا ہوں ، کہ بتائیں تو کیا بتائیں۔ڈاکٹر سید احمد قادری نے مذید بتایا کہ ایسے سیمینار ، کانفرنس اور مسلسل مشاعرے کے فیصلے اکادمی کی مجلس عاملہ میں نہیںکئے جاتے ہیں ، بلکہ اکادمی کے سیکریٹری ،جب کسی کو نوازنا چاہتے ہیں ، ایسی محفل آراستہ کر دیتے ہیں۔اب اسی 21-22 فروری کو منعقد ہونے والے دو روزہ’ عالمی اردو کانفرنس’ کو لیجئے ، تو اس سلسلے میں مجھے اس کا کوئی علم نہیں ، اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اکادمی نے کب کیا ۔اس کی کوئی اطلاع مجھے نہیں ہے۔ بہار اردو اکادمی کی مجلس عاملہ کا ایک رکن ، مجھے بھی حکومت بہار نے بنایا ضرورہے ۔ لیکن آج میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اکادمی کے بیشتر فیصلے میں مجلس عاملہ کے ممبران کی رضامندی حاصل نہیں رہی ہے ۔ اوّل تو اکادمی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہوتی نہیں ہے اور اگر کبھی ہوئی اور جو تجاویز منظور کی گئیں ، وہ بعد میں بدل کر ‘من مطابق’ کر لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اکادمی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ہوئے فیصلے سے اخبارات کو مطلع نہیں کیا جاتا ہے اور اکادمی میں ہونے والے سیمنار، کانفرنس اور مشاعروں وغیرہ کی اطلاع بھی ممبران کو بھی اخبارات کے ذریعہ ہی ملتی ہے۔ ابھی ابھی جب میں امریکہ سے لوٹا تو اخبارات کے ذریعہ مجھے یہ خبر ملی کہ بہار اردو اکادمی کی جانب سے دو روزہ عالمی کانفرنس 21 اور22مارچ کو پٹنہ میں منعقد کیا جا رہا ہے۔میں نے سمجھا کہ ممکن ہے میری عدم موجودگی میں اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے مجلس عاملہ کی میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا ہو ۔ گرچہ میرا سمجھنا غلط تھا کہ جب اکادمی کے سارے فیصلے ‘فرد واحد’ اپنے من مطابق لیتے رہتے ہیں ، تو پھر اس کانفرنس کے لئے عاملہ کی میٹنگ کی ضرورت ہی کیا؟ ، اور یہی ہوا ، جب میں نے معلوم کیا تو عاملہ کے لوگوں نے بتایا کہ20 ستمبر16 کے بعد کوئی میٹنگ ہوئی ہی نہیں ہے ، یعنی کہ اس درمیان جتنے بھی جلسے اور مشاعرے وغیرہ ہوئے ، یہ سب کے سب ‘فرد واحد’ کے فیصلے کے تحت ہوئے ۔ اکادمی کی مجلس عاملہ کی ہونے والی گزشتہ میٹنگ 20 ستمبر16 ء کو میں نے اکادمی میں ہو رہی ناانصافی، حق تلفی اور فرد واحد کے ذریعہ اکادمی کے دستور العمل کے خلاف مسلسل کام کئے جانے کے سلسلے میں ایک عرض داشت تمام ممبران کی موجودگی میں کارگزار صدر اور وزیر اقلیتی فلاح ڈاکٹر عبدالغفور کو دیا تھا ۔ لیکن افسوس کہ میری اس عرض داشت کے جواب میں اخلاقی طور پر بھی جواب دینے کی زحمت نہیں کی گئی۔اس کامنفرس کے سلسلے میں ڈاکٹر سید احمد قادری نے مذید بتایا کہ اس سال کے مجوزہ عالمی اردو کانفرنس کی طرح ہی گزشتہ سال بھی اسی طرح کی قومی کونسل برائے فرغ اردو زبان، نئی دہلی کی دیکھا دیکھی ایک کانفرنس 12-13 فروری 16 ء کو منعقد کی گئی تھی ۔ جس میں عالمی شخصیات سے کہیں زیادہ مقامی افراد تھے۔اس کا فیصلہ بھی اکادمی کے سیکریٹری نیاپنے طور پر کر لیا تھا ۔ بس ایک رسمی رضامندی کے لئے 4فروری 16ء کو عاملہ کی میٹنگ میں بہت سارے ایجنڈے کے ساتھ رکھا گیا ۔ اس پر عاملہ کے ممبران نے اعتراض جتایا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ، تو کارگزار سمیت سبھوں نے اکادمی کے دستورالعمل کے خلاف ہوئے اس فیصلہ کو رد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن اس وقت سیکریٹری کے ہر غلط عمل اور فیصلے پر ساتھ دینے والے اکادمی کے نائب صدر ڈاکٹر اعجاز علی ارشد نے سبھوں سے گزارش کی کہ اب تو فیصلہ ہوگیا اور آخر وقت میں اسے ملتوی کیا جائے گا تو ریاست بہار او راکادمی کی بہت تضحیک ہوگی۔ معاملہ طول پکڑ گیا تو یہ طئے ہوا کہ اس معاملے پر نئے سرے سے غور و خوض کے لئے چند روز بعد یعنی 10 فروری کو ایک بار پھر میٹنگ ہوگی اور اس میٹنگ میں ریاست بہار کی ذلت و رسوائی نہ ہو ا س لئے سبھی لوگ مجبوراََخاموش ہو گئے اور رضامندی دیتے ہوئے یہ تنبیہ کی کہ آئندہ اس طرح کے فیصلے مجلس عاملہ کے بغیر نہ ہوں ۔ لیکن افسوس کہ پھر وہی حرکت دوہرائی گئی ، مجلس عاملہ کی منظوری تو دور عاملہ کے ممبران تک کو اس کی اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔اس عالمی کانفرنس پرجب ایک روزنامہ میں کئی سوال اٹھائے او راس بات پر اعتراض جتایا کہ ایسے موقعوں پر صحافیوں اور اردو تحریک کاروں کا نظر انداز کیا جاتا ہے ، تو اس کے جواب میں راتوں رات’ فرد واحد’ نے چار نام مذید جو ڑ دئے ۔ جس میں دو صحافی اور دو اردو تحریک کا رکو شامل کیا گیا ۔ اب کوئی بتائے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہیاوقر کس کی اجازت سے کیا جا رہا ہے۔ اکادمی کے فنڈ کا جس طرح بندر بانٹ ہورہا ہے ۔ وہ یقینی طور پر قابل مذمت ہے اور میں اکادمی کی مجلس عاملہ کے ممبر کی حیثیت سے اپنی بے زاری کا اظہار کرتا ہوں اور جو لوگ بار بار مجھے فون کر اس بابت سوال کرتے ہیں ، انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کے لئے یہ چند جملے بیان کر دیا ہے ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ دفن ہے ، جن کا اظہار میں جلد ہی کرونگا۔