وفاقی وزرا کے لیے نئی سفری پالیسی، کن حالات میں غیر ملکی دورہ کر سکیں گے؟
نئی سفری پالیسی کے مطابق، وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین کے سرکاری دورے صرف وزیراعظم کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔ اس سے منظور ہے کہ وفاقی حکومت کی بلند ترین افسران کے سرکاری دورے صرف اہم اور ضروری معاملات کے حل اور ترتیبات کے لیے ہوں گے۔ یہ سفری پالیسی موجودہ حکومت کی کفایت شعاری مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد سرکاری اخراجات کو کم کرنا اور عوام کے پیسوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔
اس پالیسی کی روشنی میں وفاقی افسران کو صرف ناگزیر وجوہات کی بنا پر سفر کی اجازت دی جائے گی، اور وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین کے سفر کو وزیراعظم کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ یہ بات یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت سفر کو صرف اہم معاملات کے لیے محدود کر کے اخراجات کو کم کرنا چاہتی ہے۔
اس پالیسی کے تحت، حکومت کی پالیسی بنیادی طور پر عوام کی خدمت، معیشتی ترقی اور ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دھیان میں رکھ کر اخراجات کو کنٹرول کرنے پر مبنی ہے۔ اس طرح کی سفری پالیسی کے ذریعے، حکومت نے اپنی اہمیتی مقاصد کو حفظ کرتے ہوئے اخراجات میں کمی کی سمجھ دکھائی ہے۔
نئی سفری پالیسی کے مطابق، سرکاری افسران کو صرف ناگزیر وجوہات کی بنا پر بیرون ملک سفر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت، اگر کسی سرکاری افسر کے لیے سفر ناگزیر نہ ہو تو ان کو کفایت شعاری پر قائم کمیٹی سے بیرون ملک سفر کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہے۔
سرکاری افسران کے فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ افسران کے معاون سٹاف کو ساتھ سفر میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
نئی سفری پالیسی کے مطابق، غیرملکی وفود کے ساتھ میٹنگز کو آن لائن انجام دینے کو ترجیح دی جائے گی اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے گا۔
اس پالیسی کے تحت، وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین کے سرکاری دورے وزیراعظم کی منظوری سے مشروط کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات حکومت کی کفایت شعاری مہم کے حصے میں اخذ کیے گئے ہیں تاکہ سرکاری اخراجات کو کم کیا جا سکے اور ملک کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکے۔
نئی سفری پالیسی کے مطابق، وزارتوں کے سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز اور انچارج ڈویژنز کے سرکاری دورے بھی وزیراعظم کی اجازت سے ہو سکیں گے۔ اگر 20ویں یا اوپر کے گریڈ کے افسران یا تین ممبران کے وفد کی بیرون ملک دورے کی اجازت درخواست کریں تو متعلقہ وزیر سے لی جائے گی۔ تین سے زائد رکنی وفد کی اجازت کے لیے وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ وزیراعظم سے اجازت لی جائے گی۔
سرکاری افسران اور وزراء کی بیرون ملک دوروں پر پابندی کے معاملے میں، وزیر اور سیکریٹری کو ایک ہی وقت بیرون ملک دوروں کی اجازت حاصل کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ صرف ناگزیر وجوہات کی صورت میں دونوں کو ایک وقت میں بیرون ملک دورے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، ناگزیر وجوہات کے بغیر دوروں کی اجازت کو بھی کفایت شعاری کمیٹی سے حاصل کرنا ضروری ہو گا۔
تمام وزارتوں کو بیرون ملک دوروں کی تمام تفصیلات وزارت خارجہ کو فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس پالیسی کے تحت، سال میں وفاقی وزیر، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین کو تین بیرون ملک دورے کرنے کی اجازت ہوگی، باقی حالات میں اضافہ کیا جائے گا صرف وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو اس پابندی سے استثنیٰ دی گئی ہے تاہم وزارت خارجہ کو تمام عالمی مالیاتی اداروں کے دوروں کے لیے اکنامک افیئرز ڈویژن سے این او سی لینا ہوگا۔
نئی سفری پالیسی کے مطابق، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اور سپیکر قومی اسمبلی کو بزنس کلاس سفری سہولیات کے مجاز قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، وزیر خارجہ، وفاقی وزراء، وزیر مملکت بھی بزنس کلاس سفر کے مجاز ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس اور سروسز چیفس بھی فرسٹ کلاس سفر کے مجاز قرار پائے گئے ہیں۔
سینیٹرز، ارکان قومی اسمبلی، وفاقی سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز، اور سفیر بھی فرسٹ کلاس کے مجاز ہوں گے۔ وفاقی حکومت سے منسلک اداروں کے افسران اکانومی کلاس میں سفر کے مجاز قرار پائے ہیں۔
اس سفری پالیسی کی دستاویزات کے مطابق، حکومتی شخصیات کو بیرون ممالک دوروں کے سفر کے لئے قومی ایئر لائن پی آئی اے کو ترجیح دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاسوں کے دوران کابینہ ارکان کو بیرون اور اندرون ملک سفر کرنے سے گریز کرنے کا کہا گیا ہے۔
نئی سفری پالیسی کی دستاویزات میں وزارت خارجہ کو بیرون ممالک دوروں کی تمام تفصیلات 15 روز میں جمع کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سفری پالیسی کی دستاویزات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی مدنظر رکھنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اس پالیسی کے موقف کے مطابق، ایسے ممالک کے ساتھ رابطہ نہ کیا جائے گا جن سے پاکستان کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
تائیوان کے ساتھ سرکاری اور نیم سرکاری روابط ون چائنا پالیسی کے تحت کیے جا سکیں گے، لیکن شمالی کوریا کے ساتھ روابط کے لیے خصوصی اجازت لینا لازمی ہوگی۔
پڑوسی ملک انڈیا کے دورے کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے اجازت لینا لازمی ہوگا۔
سفری پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ بیرون ممالک کمپنیوں کی میزبانی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ایکسپرٹس اور کنسلٹنٹس صرف دو طرفہ بات کے دوران دورہ کے مجاز ہوں گے۔
حکومتی ترجمان نے بتایا کہ نئی سفری پالیسی کا مقصد ملکی خزانے پر کم بوجھ ڈالنا ہے، اور ملک کے اندر بچت پلان کے عمل درآمد کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک دوروں پر بھی کفایت شعاری لازمی ہے۔

