مذاکرات کاروں کا رمضان سے پہلے غزہ میں جنگ بندی پر زور
غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کیلئے قاہرہ میں مذاکرات کاروں کی کوششوں کا امیدوار ہونا بڑی بات ہے۔ اگر ان مذاکرات میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اور جنگ روک دی جاتی ہے، تو اس سے غزہ کے معیشتی حالات میں بہتری اور افراد کی زندگیوں کی بہتری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
رمضان کے اہم ماہینہ کے قریب ایسی معاہدے پر موافقت کرنا اور جنگ کو معطل کرنا ایک انسانی اقدار کی نشانی ہوگا، جو معاشرتی اور انسانی تعلقات کی ترمیم کے لیے اہم ہوگا۔ اس کے علاوہ، رمضان ایک ماہ ہے جب مسلمان دنیا بھر میں امن، رحمت اور احسان کی بارشوں کا موسم مناتے ہیں، لہذا اس موقع پر جنگ کے خاتمے کی باتیں کرنا اور مسالمت کی فراہمی کا پیغام دینا ایک بہترین قدم ہوسکتا ہے۔
بھیانک جنگ کی صورتحال میں غزہ میں امدادی رسد کی کمی کی وجہ سے قحط کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ جنگ زدہ علاقہ میں خوراک کی ترسیل منقطع ہو گئی ہے، اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو بھوک سے موت کا سامنا ہے، جبکہ غزہ کے باشندوں کو امداد کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے دفتر کے باہر انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
غزہ کے بے گھر رہائشی محمد ابو عودہ نے بتایا کہ امدادی مواد کی کمی کی وجہ سے مشکلات ہو رہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ مجوزہ معاہدہ جنگ کو کم از کم چھ ہفتوں کے لیے معطل کر سکتا ہے، اور اس کے تحت انسانی امداد میں اضافے کی اجازت دی جائے گی۔ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ حماس 100 یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔
فلسطینی اسلام پسند گروپ نے معاہدے کی قبولیت کا اظہار کیا ہے۔

