واک کے بغیر دل کی صحت کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
طبی ماہرین جسمانی اور قلبی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے عام طور پر روزانہ 10 ہزار قدم چلنے کی توصیہ دیتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد میں لوگوں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم کچھ ماہرین نے واکنگ یا چہل قدمی کے علاوہ دل اور جسم کی صحت کو برقرار رکھنے کے دوسرے طریقے بھی بتائے ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق، روزانہ پانچ بار سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے سے (ہر بار کم از کم 10 سیڑھیوں پر مشتمل ہونا چاہیے) دل اور دماغ کے فالج سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے ایک سروے کیا جس میں چار لاکھ برطانوی رضاکاروں نے شرکت کی۔ اُن رضاکاروں کی صحت بہتر رہی جو یومیہ 10 بار زینہ اترتے اور چڑھتے تھے۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق، سیڑھیوں پر چڑھنا بھی ایک قسم کی ورزش ہے جس طرح آپ واکنگ یا جاگنگ کرتے ہیں یا سائیکل چلاتے ہیں اور اس کا صحت کے لیے فوائد ہیں۔
ٹیولن یونیورسٹی کے محققین نے برطانیہ میں چار لاکھ 58 ہزار 860 افراد پر 12 برس تک تحقیق کی، جس میں چار لاکھ سے زیادہ افراد روزانہ کم از کم چھ سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ ان رضاکاروں کو معلوم ہوا کہ 39 ہزار 43 افراد کو خون کی شریانوں میں تنگی کی شکایت تھی، جس کے بارے میں ان کو اطلاع دی گئی۔ اس مرض میں خون کا بہاؤ مشکل ہو جاتا ہے۔
ایتھروسکلروسیس جریدے میں شائع ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ روزانہ کم از کم چھ سیڑھیاں چڑھنے والوں میں ایتھروسکلروسیس (شریانوں کی تنگی) کا امکان 16 فیصد کم رہا۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ روزانہ کم از کم 50 سیڑھیاں چڑھتے رہے، ان کا دل کے دورے یا فالج کا خطرہ بہت کم رہا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ واک کے مقابلے میں سیڑھیاں چڑھنے سے کیلوریز زیادہ جلتی ہیں اور پھیپھڑوں کے علاوہ پٹھے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ اس ریسرچ میں شامل ڈاکٹر لوکیوئی کا کہنا تھا کہ زیادہ سیڑھیاں چڑھنے والوں کی دل کی صحت اور نظام تنفس کافی بہتر رہا۔ ان میں وہ افراد خاص طور پر شامل ہیں جو کسی قسم کی جسمانی ورزش نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ کہ یومیہ بنیاد پر سیڑھیاں چڑھنا بھی دل کے امراض سے بچاؤ کے لیے بہترین عمل اور ورزش ہے۔
تاہم، مذکور مطالعہ یا ریسرچ مشاہدے کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور اس میں دی گئی معلومات کو محدود حد تک ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف سیڑھیاں چڑھنے سے دل کے امراض کا خطرہ ختم یا کم ہو جاتا ہے، اور نہ ہی اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ جسمانی ورزش کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔

