ہم نے من حیث القوم کیا تاریخ سے سبق سیکھا؟
ہم نے من حیث القوم کیا تاریخ سے سبق سیکھا؟
ہر پاکستانی کو یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنے چاہیے۔
اگر نہیں تو ہمارے لیے یہ بات انتہائی سوچ طلب ہے کہ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے۔
کب ہم فرقوں قومیتوں اور مسلکی تعصبات سے نکل کر ایک قوم بنے گے۔
کیا ہم بھول گئے جب مشرقی پاکستان ہم سے کٹ کے بنگلہ دیش بنا۔
یا پھر یہ بھول گئے کہ جب 50,000 پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دشمن ہمارے تعاقب میں ہے۔اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔
ایک سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی کی ٹانگيں کھینچ رہی۔ایک ۔مذہبی پارٹی دوسری مذہبی پارٹی کی پگڑی اچھال رہی۔ملک میں گالیوں اور نفرتوں کا بازار گرم ہے۔
کسی میں کوئی احساس نہیں ۔
گلشن کے اجڑنے کی پھر کسی سے فریاد نہ کرنا
کہ اسکی جڑوں کو کھوکھلا کیا اپنے ہاتھوں تم نے
جب دشمن کا شر عروج پر تھا اسے مٹانے
تم تھے آپس میں دست و گریبان کیسے کیسے،
ہم کب ایک قوم بنے گئے۔مجھے کوئی ایک ملک موجودہ دور کا بتا دے۔جن کا المیہ اوڑھنا بچھوڑنا ۔اور ملکی مساہل پسے پشت ڈال کر صرف اور صرف سیاست کا رونا دھونا شروع ہیں ۔خدارا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کو سیاسی حد تک ہی محدود رکھے۔اخلاقیات ذاتیات اور اچھے تعلقات سیاست کی بھینٹ نہ چڑھاے۔ابھی تو فیس بک پر ایک دوسرے کو لعن طعن کے علاوہ کچھ بھی نظر نییں آرہا۔ملک کو ترجعیات میں شامل کریں ۔کم از کم یہ کوریا والوں کو تو ایک بات سمجھ جانی چاہیے ۔۔کہ کورین قوم اپنے ملک کے لیے کیا اور کتنا سوچتی ہیں۔انکا تو بچہ بھی جب بات کرتآ ہے تو کہتا 우리나라(میرا ملک) اور ہم ایک راگ ہانکے جارہے ہیں۔مدت سے پاکستان کی خوشیاں دھشت گردی کی نظر ہوچکی ہے ۔نہ ہماری عید عید رہی ہے نہ ہمارا قومی تہوار وہ خوشیوں میں لہراتا نظر آتا ہے۔
کیا ہم اتنے بے بس پاکستانی ہے
کیا ہم اتنے مجبور پاکستانی ہے
کیا ہم اتنے لاچار پاکستانی ہے
ایک منٹ کے لیے اپنے دماغ سے سیاسی سم نکال کر دیکھے ۔آپ کا ایمانی روحانی پاکستانی سوفٹ وئیر اتنی طاقت سے سنگنل دے گا کہ آپ خود کو ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار دیکھے گئے۔لہذا نفرتوں کے خول کو توڑ کر محبت کے گلدستے اٹھاے اور یوم پاکستان منائے ۔یہ آزادی وہ نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جاے کم ہے۔