یونان سے ترکی ملک بدر ہونے والوں میں پاکستانی سرفہرست
یونان(نمائندہ خصوصی)یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے کا عمل پھر سے شروع کر دیا گیا ہے، ملک بدر ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ترکی اوریورپی یونین کے مہاجرین سے متعلق طے شدہ اس معاہدے پر عمل درآمد گزشتہ برس اپریل کے مہینے سے شروع کر دیا گیا تھا۔ تاہم یونانی پولیس کے مطابق اس معاہدے کے تحت مہاجرین اور تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرنٹیکس‘ کے مطابق یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ اس معاہدے کے تحت گزشتہ برس اپریل سے لے کر اب تک صرف تیرہ سو مہاجرین اور تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھیجا گیا ہے یونانی پولیس بھی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری کے عمل میں سست رفتاری کا اعتراف کرتی ہے۔ تاہم یونانی پولیس کے مطابق یہ سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ ہفتے ہی یونانی جزیرے لیسبوس سے پندرہ غیر قانونی تارکین وطن کو بحری جہاز میں سوار کر کے ترکی کے ساحی شہر ڈیکیلی میں قائم پناہ گزینوں کے مرکز بھیجا گیا ہے۔ یونان کے مطابق واپس ترکی بھیجے جانے والے غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی شہریوں کی ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کے بعد افریقہ سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو ملک بدر کر کے ترکی بھیجا گیا ہے۔ ایتھنز حکام کے مطابق ملک بدریوں کے اس عمل میں سست روی کی ایک بڑی وجہ یونان میں پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا پیچیدہ نظام ہے۔ پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت متعدد یونانی جزیروں پر پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن موجود ہیں، جن کی پناہ کی درخواستوں کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی ترکی ملک بدری کے بارے میں فیصلہ کیا جانا ہے۔ یونانی حکام اور پولیس کے مطابق ترکی ملک بدری کے علاوہ سینکڑوں تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے وطنوں کی جانب بھی لوٹ رہے ہیں۔ رضاکارانہ وطن واپسی کا پروگرام بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے اور اس برس ساڑھے چودہ سو سے زائد تارکین وطن یونان سے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔