دانشمندوں کی اقسام نذر حافی
دانش مندوں کی دو قسمیں ہیں، مسائل حل کرنے والے اور مسائل پیدا کرنے والے۔ ہمارے ہاں دانشمندوں کی صرف دوسری قسم ہی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی جان لیجئے کہ پوری دنیا میں دانشمند اقلیت میں پائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اکثریت میں دستیاب ہیں۔ خصوصا وٹس اپ اور فیس بک کے مارکیٹ میں آنے سے ان کی تعداد میں اندھادھند اضافہ ہوا ہے۔شروع شروع میں ان کی آبادی میں خوفناک اضافے کو دیکھ کر ہمارے ایک دوست روزانہ وٹس اپ کے دو تین نئے گروپ بنایا کرتےتھے۔ پھر وہ سب سے کہتے تھے کہ یار مجھے کچھ فعال سوشل ایکٹوسٹ کے نمبرز دو۔ ایک دن ہم نے ان سے ان فعال سوشل ایکٹوسٹ کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ پوچھی تو مسکرا کر بولے کہ آج کل وٹس اپ کے گروپس میں مجھے روزانہ کچھ ذہنی مریضوں کو قید کرنا ہوتا ہے۔ اگر انہیں آزاد چھوڑا جائے تو یہ دوسرے گروپوں میں جا کر مخلوقِ خدا کو تنگ کرتے ہیں۔لہذا میں چاہتا ہوں کہ یہ میرے گروپوں میں ہی ایک دوسرے پر خودکُش حملے کرتے رہیں تاکہ مخلوقِ خدا اِن کی دہشت گردی سے امان میں رہے۔ پھر انہوں نے توبہ توبہ کرتے ہوئے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بڑے رازدارانہ لہجے میں بولے کہ میاں !کسی بھی وٹس اپ گروپ کا ایڈمن اگر تھوڑی دیر کیلئے سو جائے یا غلطی سے کوئی کتاب پڑھنے لگ جائے تو ان دانشمندوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ یہ اُس وقت تک گروپ میں اُدھم مچائے رکھتے ہیں جب تک ایڈمن کو یہ یاد نہ آ جائے کہ اُس نے ایک وٹس اپ گروپ کا شوق بھی پال رکھا ہے۔پھر وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولے، یہ وٹس اپ اور فیس بکی دانشمند بات سے بات نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ جتنی گفتگو کرتے جاتے ہیں اُتنا ہی جھگڑا مزید لمبا ہوتا جاتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے دانشمند مسائل اور جھگڑے حل کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے دانشمند مسائل اور جھگڑے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ لمبے بھی کرتے ہیں۔ اپنے دوست کی اس بات سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اگر ہمارے ہاں کے دانشمند اپنا کام چھوڑ دیں تو دیگر ممالک کے دانشمند بے روزگاری سے ہی مرجائیں گے ۔چونکہ اگر مسائل پیدا نہیں ہونگے تو وہ حل کیا کریں گے۔
ہمارے ہاں کچھ دانشمند ایسے بھی ہیں کہ جن کے نزدیک کتابوں اور اخبارات کے چھاپنے کا زیادہ فائدہ صرف پکوڑے بیچنے والوں کو ہی ہوتا ہے۔ پکوڑے ویسے بھی صحت کیلئے مضر ہیں اور جب انہیں گندے اور ردّی کے اخبارات و جرائد میں لپیٹ کر بیچا جاتا ہے تو اس سے ان کا ضرر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔اب رہی بات لکھنے کی تو گپ شپ کے شوقین دانشوروں کے مطابق لکھنا لکھانا تو بالکل ممنوع ہونا چاہیے، خاص کر کلاسوں میں استاد حضرات جو تحقیق وغیرہ کا کام دیتے ہیں اُس پر تو کوئی سخت پابندی ہونی چاہیے۔ رہی بات کالمز اور خبروں کی تو یہ سب کچھ تو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ان گپی دانشوروں کا کہنا ہے کہ لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک مسائل کا حل دوسروں کے ہاں جا کر گھنٹوں آلتی پالتی مار کر خوب گپیں لگانا ہے۔ جہاں بات گپ شپ سے نہ چلے خاموشی اختیار کرنے، منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں ہی عافیت ہے۔
اچھا تو یاد آیا کہ ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک اور بھی قسم ہے
یہ ایسے دانشمند ہیں جو ہر وقت ، میں۔۔۔۔ میں ۔۔۔میں۔۔۔ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی آپ غلطی سے ان کے درمیان پھنس جائیں تو آپ کو ایسے محسوس ہوگا کہ جیسے آپ عید قربان کے دنوں بکرا منڈی میں آگئے ہیں۔ کوئی سی بھی بات ہو۔۔۔میں،میں،میں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ ان، میں، میں، کرنے والوں میں اکثر ایسے مہا دانشمند ہیں کہ جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے، یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے، البتہ اپنی میں۔۔۔ میں۔۔۔ سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور ہر جگہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرتے ہیں۔ آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس کے بارے میں اپنا سنہری تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔
آپ خطابت کی بات کریں تو یہ ضرور مشورہ دیں گے ، آپ صوت و لحن کی بات کریں تو ان کی ماہرانہ رائے بڑے بڑے قاریوں پر بھاری ہو گی، آپ عالمی اقتصاد کے مسائل چھیڑیں تویہ ان مسائل کی گتھیاں سلجھانے لگیں گے، آپ مدیریت کی بات کریں تو یہ اس میں بھی میں ،میں کرتے نظر آئیں گے۔ اگر آپ کسی میٹنگ میں ان کو بلا لیں تو یہ یاتو اتنی لمبی بات کریں گے کہ کسی اور کو بولنے کا موقع ہی نہیں ملے گا اور یا پھر کسی اور کے ساتھ ایسا جھگڑا شروع کریں گے کہ ساری میٹنگ اسی جھگڑے کوہی ختم کرانے میں ہی ختم ہو جائے گی۔
ان کے پاس، میں۔۔۔میں۔۔۔ کی طرح چند رٹے رٹائے جملے بھی ہوتے ہیں،مثلاً میں نہ ہوتا تو پھر پتہ چلتا، میں نے تو دنیا گھوم کر دیکھی ہے، میں تو تنظیمی ہوں، میں تو سینئر ہوں۔۔۔میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔۔۔ میں تو انقلابی ہوں، میں ہوتا تو یوں کرتا۔۔۔میں تو اتنا تجربہ رکھتا ہوں، میں تو۔۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔سونے پر سہاگہ تو یہ ہے کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اور اگر یہ کہیں پر اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا بھی چاہیں تو سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔
یہ ٹھیک ٹھاک اور چپ چاپ بندے کے ساتھ سینگ پھنسانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے یا کوئی خبر نقل کرے کہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “ اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں ایسا الجھا دیں گے کہ اصل خبر ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گی۔
علاوہ ازیں ایسے اشرف المخلوقات دانشمند بھی بکثرت موجود ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاً اگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہا ہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے شراب پر ایک علمی اور کتابی مقالہ اس طرح سے لکھیں :۔
شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات
آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔
نوٹ کر لیجئے کہ ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک بہت ہی نایاب قسم بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تعداد میں جتنےکم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔ یہ ایک چھوٹے سے مسئلے میں پہلے غبارے کی طرح خوب ہوا بھرتے ہیں۔ ذرّے کو بڑھا چڑھا کر ماونٹ ایورسٹ جتنا کر کے چھوڑتے ہیں اور جب ایک چھوٹا سا مسئلہ انتہائی سیریس اور گھمبیر ہوجاتا ہے تو پھر آخر میں یہ اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت یا معذرت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،، بیوروکریسی, مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں تو یہ نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔
اس وقت ان کے بیانات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:
خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے، پاکستان، عراق، شام، افغانستان وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے، ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔
ایسے ماہرین کسی بھی سادھے سے مسئلے کو پیچیدہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے بین الاقوامی مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔
ان کی ایک مثال اور بھی ملاحظہ فرمائیں، مثلاً اگر آپ انہیں یہ کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ یعنی فلاں جگہ پر مافیا انسانوں کا خون پی رہا ہے تو اس کے بعد ہمارے ہاں کے ”نایاب دانشمند“ کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کاصاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔
اب آئیے دانشمندوں کی ایک تبلیغی جماعت کا حال بھی جانئے۔ یہ دانشمند ہر وقت بوریا بستر باندھ کر دوسروں کی اصلاح کے پیچھے پڑے رہتےہیں۔ فلاں نے یہ کہا،فلاں نے یوں کردیا، فلانے کی اتنی بیویاں ہیں، فلاں کے اتنے بچے ہیں، فلاں کتنے عرصے بعد موبائل یا گاڑی تبدیل کرتا ہے اور فلاں روزانہ اتنا خرچہ کرتا ہے ۔۔۔ ان کے پاس مختلف علاقوں کی اہم شخصیات اور اداروں کے نقائص اور عیوب کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہوتا ہے۔لیکن انہیں اپنی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہم کتنے پانی میں ہیں!
مذکورہ اقسام کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک ایسی قسم بھی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے آپ کوئی مسئلہ بیان ہی نہیں کر سکتے۔
مثلا اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں جگہ پر پولیس والے ناکہ لگاکر رشوت لیتے ہیں تو یہ فورا بولیں گے کہ اجی! ابھی ہم کل ہی تو آئے ہیں ،ہم سے تو کسی نے رشوت نہیں لی۔ آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ دانشمند صاحب آپ سے تو کسی نے رشوت نہیں لی ،اس لئے آپ کا تو مسئلہ ہی نہیں، آپ کیوں بول رہے ہیں، جن سے رشوت لی گئی ہے انہیں بولنے دیں،یہان کا مسئلہ ہے۔ لیکن مجال ہے کہ یہ خاموش ہوجائیں ۔۔۔
ان کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی جوتا خریدنے اکٹھے دکان پر جائیں اور دونوں باری باری جوتےے کو پہن کر چیک کریں۔ ان میں سے ایک کہے کہ یہ جوتا میرے پاوں میں پورا نہیں ہے جبکہ دوسرا چیخنے لگ جائے کہ میں نے ابھی ابھی پہن کر دیکھا ہے کہ پورا ہے۔ اب چیخنے والے کو کون سمجھائے کہ تم کیوں چیخ رہے ہو، جس کو پورا نہیں ہے اسے بولنے دو یہ اس کا مسئلہ ہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں ایک حلقے کے نزدیک صرف تنقید کرنے اور بہ اصطلاح دیگر کیڑے نکالنے کو ہی دانشمندی سمجھا جاتا ہے۔ اس حلقے میں ایسے افراد حلقہ بنائے بیٹھے رہتے ہیں جو دوسروں کی ذات اور کاموں میں دن رات خامیاں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
ان عظیم دانشمندوں کی بدزبانی کا علاج ان کا پیٹ ہوتا ہے۔ ان کی تنقید سے بچنے کا واحد فارمولہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ بنا کر رکھئے اور انہیں کچھ نہ کچھ کھلاتے پلاتے رہیے۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے یومِ آزادی کے روز بھی کہ جب ملت پاکستان، جشنِ آزادی کے کیک کاٹ رہی ہوتی ہے ،چاند میری زمین پھول میراوطن اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں جیسے ترانوں سے خوشی کا اظہار کررہی ہوتی ہے، نیز پورے ملک میں ملکی سلامتی اور ترقی کے لئے دعائیں کی جارہی ہوتی ہیں اورنئی نسل کے سامنے تاریخ پاکستان کو بیان کیا جارہاہوتا ہے ۔۔۔اس وقت بھی اگر انہیں کیک کا ایک ٹکڑا تھوڑا سا چھوٹا مل جائے تو یہ منہ بسور کر حالات کا ماتم کرنے لگ جاتے ہیں اور آنسو بہانے شروع کر دیتے ہیں کہ اقبال تیرے دیس کا میں کیاحال سناوں۔۔۔یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے۔۔۔کیک نہ ملنے پر یہ اتنے رنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثبت پہلو،تعمیروترقی اور پیشرفت نظر نہیں آتی ۔
اب کچھ ایسے دانشمندوں کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جو پاکستان میں تعلیمی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ان کا ہم وغم بہت سارے سکول اور یونیورسٹیاں کھولنے کا ہوتا ہے، نظامِ تعلیم میں تبدیلی تو اِن کے ایمان کا حصہ ہے۔
البتہ ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو خود میٹرک پاس بھی نہیں ہیں اور بعض نے بمشکل پرائیویٹ طریقے سے ایف اے یا بی اے کیا ہوتا ہے اور جنہوں نے کسی ادارے سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی بھی ہوتی ہے تو ان کا موضوع علم التعلیم نہیں ہوتا۔
ایسے دانشمند آج کل ہمارے ہاں بڑی دیدہ دلیری سے تعلیم کے نام پر چندے اکٹھے کررہے ہیں اور ملک و ملت میں تعلیمی انقلاب کے لئے مصروف ہیں۔ یعنی ہے ناں مزے کی بات کہ ایک شخص علمُ التعلیم پڑھے بغیر یا تو میٹرک فیل ہے، یا پرائیویٹ کچھ تھوڑا بہت پڑھا ہے اور یا پھر ایم بی بی ایس، کسی دینی مدرسے کا پڑھا ہوا یا ایل ایل بی وغیرہ ہوتا ہے لیکن وہ جدید نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات کرتا ہے۔
اسی طرح کچھ ایسے بھی دانشمند ہیں کہ وہ دینی نظام تعلیم میں تبدیلی کے خواہاں ہیں، دن رات دینی مدارس کو کوستے رہتے ہیں، ان کے کلاس فیلوز سے اُن کی اپنی تعلیمی حالت کے بارے میں پوچھیں تو پتہ چلتا ہے کہ عالی جناب ابتدائی دو تین سالوں کے بعد ہی دینی تعلیم میں نکٹھو ثابت ہو گئے تھے، پھر انہوں نے اپنی اصلاح کے بجائے دینی مدارس کی اصلاح کا مشن شروع کر دیا تھا جسے ابھی بھی انہوں نے جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔
اب ان دانشمندوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو صرف وبائی امراض یا آسمانی آفات کے وقت نمودار ہوتے ہیں، ایسے اوقات میں یہ بڑے مقدس ناموں کی پھکیاں ، معجونیں، تعویز، دم اور ورد لے کر آجاتے ہیں، مثلا: مکی سرمہ، مدنی کنگھی، غوثیہ ختم، نجفی معجون، قمی تعویز، مشہدی اگربتیاں اور ۔۔۔حتی کہ اگر کرونا کا کوئی شریف النفس مریض بھی ان کے ہاتھ لگ جائے تو یہ اُس پر بھی اپنا دستِ شفقت پھیرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اب بھلا ان دانشمندوں کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے کہ جو ایڈمن کے ڈر سے لوگوں کو اُن کے پرسنل نمبروں پر تھوک کے حساب سے پوسٹیں بھیجنی شروع کر دیتے ہیں۔ان میں سے اکثر بہت مہربان، نرم دِل اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ یہ آنکھیں بند کر کے ٹھکا ٹھک پوسٹیں فارورڈ کرنے کو انسانیت کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔ خصوصا اگر کسی کی مجلسِ ترحیم یا نذر ونیاز کی پوسٹ ہو تو ان کی دلی تمنّا یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے ہر غریب ، فقیر اور بھوکے تک یہ پوسٹ پہنچ جائے۔
بعض اوقات تو یہ مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ اگر کسی نے یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ آج شام پانچ بجے میری والدہ کی برسی ہے ۔ آپ سب کو اس میں شرکت کی دعوت ہے نیز طعام اور لنگر کا بھی وسیع انتظام ہے۔اس کے بعد یہ مہربان روحیں سارا دن آنکھیں بند کر کے اس پوسٹ کو فارورڈکرتی رہتی ہیں ،ان کی آنکھیں تب کھلتی ہیں جب شام کو لوگ ان کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں، اس وقت انہیں خیال آتا ہے کہ اوہو! ہماری والدہ کی برسی نہیں تھی بلکہ۔۔۔میسج کو فارورڈ کرنے سے پہلے اس میں اصلاح کرنی چاہیے تھی۔
قارئینِ کرام ! اپنے اپنے وٹس اپ گروپ چیک کیجئے، فیس بُک پر بھی ایک نگاہ ڈالئے اور اپنے پیارے دانشمندوں کے بیانات، تقاریر، کمنٹس ، نگارشات اور تحقیقات کا جائزہ لیجئے اور پھر خوب ہنسیے، کہتے ہیں کہ ایک شخص اخبار پڑھتے ہوئے زور زور سے ہنس بھی رہا تھا،کسی نے پوچھا کہ بھائی کیا کوئی خاص خبر ہے،کیوں ہنس رہے ہو !؟اس نے کہا کہ نہیں کوئی خاص خبر تو نہیں البتہ میں اس لئے ہنس رہاہوں چونکہ اس میں لکھا ہے کہ ہنسنے سے خون پیدا ہوتا ہے۔
اپنے دانشمندوں کی دانش مندی پر آپ بھی ہنسیے اور خون پیدا کیجئے۔